رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی نصف گزر چکا ہے۔ عید قریب آگئی ہے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی عید کے استقبال کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ملک بھر کے شہروں کے بازاروں میں بھیڑ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ دوسری جانب مہنگائی اپنی جگہ عروج پر ہے۔ خصوصا چھوٹے بچوں کی ضرورت کی اشیاء مہنگی ہو چکی ہیں۔ملک میں مہنگائی کا عروج تو ہر رمضان میں ہی ہوتا ہے مگر اس بار ماضی کے سبھی ریکارڈ توڑ دیئے گئے ہیں ۔اس بار چیک اینڈ بیلنس ہی نہیں ۔ہر دکاندار کے ریٹ الگ الگ ہیں ۔بچوںکے ملبوسات اور جوتے خاص طور پر مہنگے ہیں گاہکوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے ۔ ملبوسات، من پسند جیولری، میچنگ دوپٹوں، چوڑیوں اور دیگر لوازم کی خریداری عروج پر ہے۔ شہری کہتے ہیں عید تو بچوں ہی کے لیے ہوتی ہے۔ ان کی تیاریاں ہوگئیں تو سمجھیے ہم نے بھی عید منالی۔حکومت اگر عوام کوکسی قسم کا ریلیف نہیں فراہم کر سکتی تو کم ازکم دکانداروں کو زیادہ دام وصول کرنے سے روک تو سکتی ہے ؟پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال کرنے کے بارے میں سنا تھا مگر رمضان کا اختتام ہو رہا ہے ابھی یہ کمیٹیاں بھی تشکیل نہیں دی گئیں ۔عید کی شاپنگ کے لیے شہر بھر کے بازاروں میں بڑھتے ہوئے رش کے باعث انتظامیہ اور پولیس نے کیمپ بھی لگائے ہیں۔مگر ابھی بھی کئی بہروپیئے عوام کو نقدی سے محروم کرتے نظر آتے ہیں ،انتظامیہ کو اس موقع پر فعال کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ شہری لٹنے سے بچ سکیں ۔