لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں پاک فوج کے ایک درجن افسران کو گرفتار کر کے ان پر خصوصی عدالت کے بند کمرے میں مقدمہ چلایا گیا لیکن اس کی کاروائی آج تک سامنے نہ آ سکی‘حیدر آباد کی عدالت میں 1951ء سے 1954ء تک یہ مقدمہ چلا اور تین ججز نے فیصلہ سنایا۔جن افسران کو حراست میں لیا گیا‘ان میں میجر جنرل اکبر خان کا نام سرفہرست رہا جو اس وقت افواج پاکستان کے چیف آف جوائنٹ اسٹاف تھے‘انھیں اس ’سازشی گروپ‘ کا سرغنہ بھی کہا گیا۔اکبر خان کے مطابق ان کا مقصد حکومت پر قبضہ کرنا نہیں بلکہ وہ ملک میں فوری طور پر آئین سازی اور مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے تھے۔میجر جنرل اکبر خان کے گروپ کی گرفتاری کے بعد لیاقت علی خان نے جو بیان دیا وہ بڑا حیران کن تھا‘ان کا کہنا تھا کہ’’ حکومت کو کچھ سازشیوں کے ناپاک ارادوں کا بروقت علم ہوا چناچہ سازش کے ان سب کرداروںکی گرفتاری آج ہی عمل میں آئی ہے‘‘۔اس کیس میں دو سویلین بھی گرفتار ہوئے جن میں پاکستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر فیض احمد فیض اور پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے حامی سجاد ظہیر شامل تھے،اس کیس کو ’راولپنڈی سازش کیس‘ کا نام دیا گیا۔ یہ کہانی کہاں سے شروع ہوتی ہے‘وہ بھی بتاتا چلوں۔ اس بغاوت کے پیچھے بنیادی وجہ فوج میں پڑنے والی دراڑ تھی جو جموں و کشمیرکی ہمالیہ ریاست کے پورے علاقے پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش اور اس سے ابھرنے والی مایوسی سے پیدا ہوئی۔ 1948ء کی پاک بھارت جنگ ایک عارضی صلح پر ختم ہوئی اور پاکستان کے ہاتھ میں کشمیر ریاست کا صرف شمال مغربی علاقہ آیا‘اس التوائے جنگ سے پاکستانی فوج کے درمیان گہری یاسیت تھی۔بہت لوگوں نے اس نتیجے کو غلطی قرار دیا اور اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اس سے بھارتی فوج کشمیر میں اپنی پوزیشن مزید مضبوط کر لے گی۔لیاقت علی خان نے اس وقت پاکستانی کمانڈروں کو اعتدال پسند پالیسی اپنانے کا مشورہ دیا۔ سازش کے شرکاء میں میجر جنرل اکبر کے علاوہ چودہ فوجی افسران اور دو اہم سویلین تھے‘جن میں فیض اور سجاد ظہیر کے علاوہ میجر جنرل اکبر خان کی اہلیہ نسیم شاہنواز خان بھی شامل تھی۔23فروری 1952ء کو میجر جنرل اکبر خان کے گھر دعوت پر لیفٹیننٹ کرنل صدیق راجہ‘میجر یوسف سیٹھی(جو بعد میں استغاثہ کی طرف سے بطور وعدہ معاف گواہ پیش ہوئے)‘فیض احمد فیض‘سجاد ظہیر اور محمد حسین عطا اکٹھے ہوئے اور گورنر جنرل ناظم الدین اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کو گرفتار کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس مقدمے کے ایک کردار کیپٹن ظفر اللہ پوشنی نے ایک خصوصی مضمون میں اس پوری رودار کو انتہائی تفصیل سے بیان کیا‘ان کا کہنا تھا کہ ’’جب قبائلی پٹھانوں کے لشکر مظفر آباد اور بارہ مولا سے ہوتے ہوئے وادی کی جانب بڑھ رہے تھے‘انڈین آرمی سری نگر میں ہوائی جہازوں کے ذریعے اتاری گئی اور اس نے قبائلیوں کو ایڈوانس کرنے سے روک دیا‘اس وقت میجر جنرل اکبر خان بریگیڈیر تھے اور انھیں قبائلیوں اور دیگر پاکستانی جنگجوئوں کی کمان سونپی گئی اور جنرل طارق کا ’کوڈ نیم‘ بھی دیا گیا۔یہیں سے اکبر خان کی بے اطمینانی کا آغاز ہوا‘وہ اس اخلاقی مدد سے خوش نہ تھے جو انھیں اور ان کے جنگجوئوں کو لیاقت علی خان کی جانب سے مل رہی تھی۔مزید میجر جنرل اکبر خان پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریس سے بھی ناخوش تھے جنھوں نے کشمیری محاذ پر پاکستانی فوج کی دخل اندازی میں رکاوٹ ڈالی تھی‘‘۔ میجر جنرل اکبر خان کا خیال تھا کہ کشمیر میں جنگ بندی قبول کر لینا پاکستانی حکومت کی غلطی تھی‘ہمیں مسلح جدوجہد جاری رکھنی چاہیے تھے۔یہی وہ مسائل تھے جس میں پاک فوج کے درمیان اختلاف پیدا ہوئے اور میجر جنرل اکبر خان مختلف افسروں کے ساتھ پلاننگ کر رہے تھے کہ لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹا جائے‘ایک نگران حکومت بنے اور ملک میں آئین سازی کے ساتھ ساتھ جنرل الیکشن ہوں۔ایک طرف اس ’سازشی گروپ‘کی پلاننگ جاری تھی اور دوسری جانب حکومت ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھ رہی تھی۔ راولپنڈی سازش کیس کا ایک مختلف پہلو یہ بھی تھا کہ اس میں بائیں بازو کے کے سیاسی لوگوں نے فوجی کوپ پلان کرنے والوں کا ساتھ دیا ورنہ سیاست کی دنیا میں ایسا بہت کم ہوتا ہے ۔اس زمانے میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی لیاقت علی خان کی حکومت کے زیر عتاب تھی‘پارٹی کے تمام رہنمائوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے ‘لیڈر تو لیڈر ‘لیاقت علی خان کی حکومت نے کمیونسٹ پارٹی کے عام کارکن کا بھی جینا حرام کر دیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ میجر جنرل اکبر خان نے کمیونسٹ پارٹی کے رہنمائوں سے وعدہ کیا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو لیفٹ کے اوپر جو حکومتی تشدد اور دبائو ہے اسے ختم کر دیا جائے گا اور پارٹی کو سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت ہوگی، باقی سیاسی جماعتوں کی طرح کمیونسٹ پارٹی کو بھی الیکشن میں امیدوار کھڑا کرنے اور جلسے جلوس کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔اس کے بدلے میں کمیونسٹ پارٹی اور اس سے ملحقہ ٹرید یونینز‘کسان کمیٹیاںوغیرہ اکبر خان کی حمایت کریں گی اور لیڈنگ اخبار ’پاکستان ٹائمز‘نئی حکومت کا خیر مقدم کرے گا۔پلاننگ یہی تھی کہ اکبر خان کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم ہوگی جو جنرل الیکشن کی راہ ہموار کرے گی،بقول کیپٹن ظفر اللہ پوشنی’’اس اہم میٹنگ میں ستر فیصد گفتگو جنرل اکبر نے کی اور تیس فیصد باقی ممبرز نے‘ لہٰذا یہ مکمل طور پر ایک ’ون مین‘شو تھا ‘کیوں کہ میجر جنرل اکبر کے علاوہ کوئی بھی شخص اس اسکیم کے لیے تیار نہیں تھا‘اس پلان پر متعدد اعتراضات سامنے آئے جن میں سب سے اہم اعتراض یہ تھا کہ مشرقی پاکستان میں ہماری اس حرکت کا کیا رد عمل ہوگا‘‘۔میجر جنرل اکبر خان نے اپنی کتاب Readers in aKashmir میں واضح لکھا ہے کہ ’’آخری میٹنگ میں آٹھ گھنٹے کی بحث کے بعد یہی فیصلہ ہوا کہ ہے جو اسکیم تیار کی گئی ہے‘اس پر فی الحال کسی قسم کا عمل نہیں ہوگا‘‘مزید انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ’’مجھے دو باتوں کا کامل یقین تھا‘اول یہ کہ ہر مہینہ جو گزرتا تھااس کے معنی یہ ہوتے تھے کہ کشمیر کے تابوت میں ایک کیل اور ٹھوکی گئی ہے اور دوسری یہ کہ جنرل ایوب خان اور حکومت کشمیر میں یہ ساری صورت حال روکنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی‘‘۔