اپنا مسکن مری آنکھوں میں بنانے والے خواب ہو جاتے ہیں اس شہر میں آنے والے شکر یہ تیرا کہ تونے ہمیں زندہ رکھا ہم کو محرومی کا احساس دلانے والے آپ کو عام انتخاب 28جنوری کو کرائے جانے کے امکان کا تو پتہ چل گیا ہوگا۔ گویا اس امکان کو حقیقت بننے میں ابھی چار پانچ ماہ ہیں۔ ہمیں الیکشن کمیشن کے ارادے بلکہ مصمم ارادے پر کوئی شک نہیں کہ وہ خود مختار ادارہ ہے۔بس ایسے ہی ایک واقعہ یاد اآ گیا جو دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ جب میں جمال احسانی کی تیماری داری کے لئے کراچی ایک ہسپتال میں گیا تو ہمارے ساتھ فاطمہ حسن اور آصف شفیع بھی تھے ۔بھارت کے مشاعروں کی بات چلی تو کسی نے کہا کہ وہاں دو اڑھائی لاکھ لوگ مشاعرہ سننے آتے ہیں ۔ جمال احسانی مسکراتے ہوئے بولے بھائی وہاں کی خاموشی بھی پچاس ہزار کی ہوتی ہے۔ دوسری بات مجھے عطاء الحق قاسمی کی یاد آئی کہ جن دنوں ان کی تنخواہ چار سو چار روپے ہوا کرتی تھی۔ اس وقت جس خبار میں وہ کام کرتے تھے اس کے حالات اچھے نہیں تھے اکائونٹنٹ نے انہیں چار روپے دیتے ہوئے کہا تھا: تو چار سو کو چھوڑ دے فی الحال چار رکھ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ جو بھی ہے ایک کے آس ضرور ہے یہاں ایک مسئلہ نہیں بلکہ مسائل ہیں۔ عوام پر ہر طرف سے تابڑ توڑ حملے ہو رہے ہیں وہی کہ’ اک بات کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے، ہر بات پر رونے کو کہاں سے جگر آئے ‘کبھی ان پر بجلی گرتی ہے تو کبھی پٹرول آگ لگا دیتا ہے اب گیس مسئلہ بن جائے گی کہ بلوں میں خاطر خواہ اضافہ اور اوپر سے لوڈشیڈنگ بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ تو جاری ہے۔ پانی کے بل بھی بڑھ گئے کہ ٹیوب ویل بجلی سے چلتے ہیں اور تو اور سولر والے بھی رو رہے ہیں کہ بل انہیں بھی آ رہے ہیں۔ اصل میں ٹیکس بجلی کی قیمت پر سبقت لے گئے ہیں، ایسا کسی بھی ملک میں نہیں ہوتا بجلی کا بل سراسر ایک چالاکی اور بے شرمی ہے کہ جو مرضی ٹیکس آپ شامل کر دیں۔آپ اسے کھلی بدمعاشی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اب بتائیے ہم ریاست کو کیا کہیں کہ ریاست تو ماں جیسی ہوتی ہے۔ بہرحال اداروں کے معاملات ہیں سیاست کو بھی آپ ادارہ کہہ لیں۔ ایک سرد جنگ بہرحال جاری ہے کہ کسی نے کسی کو مکھن سے بال کی طرح نکال باہر کیا ہے۔ آپ یوں کہہ لیں کہ جن کا سب سے زیادہ اثر و رسوخ تھا۔ اب وہ آنکھ میں ڈالے بھی نہیں رڑکتے ،ہائے ہائے۔ احمد فراز کیوں یاد آئے: تو نہ چاہے تو نہیں ہوں تو جو چاہے تو میں ہوں میری اوقات ہی کیا ہے پر کاہ تو میں ہوں یقینا آپ بات میری سمجھ گئے ہوں کہ کوئی پریشان ہے کہ کوئی ملک سے جاتا کیوں نہیں اور کسی کے بارے میں حیرت کہ وہ آتا کیوں نہیں ۔ گمان دونوں سے ایک سا ہے کہ ہر دو ایک ہی خرابی کرے گا کہ مرزا یار کے لئے گلیاں تو سنجیاں چاہئیں۔چلیے اپنے مفہوم کے لئے ایک اور شعر ذہن میں آ گیا: کچھ بھی نہیں ہوں میں مگر اتنا ضرور ہے بن میرے شاید آپ کی پہچان بھی نہ ہو سوشل میڈیا ہی رہ گیا ہے جہاں سیاست رہ گئی ہے۔ وگرنہ تو سب اپنے تئیں اگر زیادہ ڈرے نہیں ہوئے تو محتاط ضرور ہیں سیاست اتنی ظالم ہے کہ اس نے مریم نواز تک کا بیانیہ ختم کر دیا۔ وجہ ظاہر ہے کہ جہاں پٹرول اور بجلی میں ایک روپیہ بڑھتا تھا تو میاں صاحب کے کلیجے میں تیر لگتا تھا اس طرح اب کے تو تیروں کی بارش میں نہ جانے کیا بنا۔ یا پھر شاید میاں صاحب کے ساتھ بھی ہاتھ ہو گیا تاہم میاں صاحب زیرک نکلے کہ کسی کی بھی طفل تسلی پر وہ واپس نہیں آئے ۔ منیر نیازی کا شعر ان کی نظر سے گزر گیا ہو گا: واپس نہ جا وہاں کہ ترے شہر میں منیر جو جس جگہ پہ تھا وہ وہاں پر نہیں رہا اب کے ہارے ہوئے عوام بھی کچھ زیادہ نہیں سوچتے۔خوف بڑھنے لگا ہے لوگوں میں،۔ اژدھا کھا گیا ہے سانپوں کو مگر ایسے شعر کھولنے نہیں جا سکتے گھائو لگا گیا وہ مجھے گہری بات سے۔ بس کیا کروں کہ شاعر ہوں ۔وہ وقت آ پڑا ہے کہ اچانک سیف الدین یاد آ گئے کہ کیا شعر کہتے تھے واہ واہ: مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے مجھے آزما کے روئے کوئی ایسا اہل دل ہو کہ فسانہ محبت میں اسے سنا کے روئوں وہ مجھے سنا کے روئے ایسے میں فیض کیوں یاد نہ آئیں گے کہ ان کا اپنا لہجہ ہے اور اپنا بانکپن واہ واہ: نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے کیا کریں سر تو ہمیں بھی عزیز کہ غالب کو پڑھ رکھا: میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا بہرحال آخری بات یہ کہ وقت ایک سا نہیں رہتا اور لوٹوں سے سیسہ پلائی دیوار نہیں بن سکتی۔ نیلما ناہید کے خوبصورت شعر کے ساتھ اجازت: جب تک وہ سلامت ہے عداوت کا مزہ ہے دشمن کو کبھی جان سے مارا نہیں کرتے