سب شش و پنج میں ہیں۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس صورتحال سے نکلنے کی سب ہی کوشش کررہے ہیں کہ صورتحال جلد از جلد کلیئر ہوجائے اور تحریک عدم اعتماد سے پہلے ہی معلوم ہوجائے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے۔ کیا ہونے والا ہے۔ یہ اس لئے نہیں کسی کو معلوم نہیں کہ کھیل رولز کے بغیر ہورہا ہے اور یہ بھی کہ چند لوگوں کے ہاتھوں میں پوری قوم کی تقدیر ہے۔ اس میں ایک یا دو کے ادھر سے ادھر ہوجانے سے ساری بساط الٹ پلٹ ہوجائے گی۔ اور یہ بھی شاید کسی کو پورے یقین سے نہیں معلوم کہ اس کو اگلی چال کیا چلنی ہے۔ لیکن بظاہر ایسا لگتاہے کہ عمران خان اب بیک فٹ پر ہیں۔ اس کے باوجود کہ وہ اپنی طوفانی ان سوئنگرز سے مخالف ٹیم کی کونٹھیاں اکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن انہیں خود معلوم ہے کہ وہ کمزور وکٹ پر ہیں اور ان کی ٹیم میں کوئی جاوید میانداد اور وسیم اکرم بھی موجود نہیں جو آخری گیند تک کچھ بھی کر دکھانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ عمومی طور پر یہ کہاجاتا ہے کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ لائی تھی۔ وہی انہیں بچارہی تھی اور وہی انہیں چلارہی تھی۔ اب اچانک وہ غیر جانبدار ہوگئے ہیں۔ اس غیر جانبداری کا نہ صرف وہ اعلان کررہے ہیں بلکہ مولانا' زرداری اور نواز شریف کو اس کا پورا یقین بھی ہوگیا ہے۔ عمران خان کو اس لئے اب خود سیاست بھی کرنی پڑرہی ہے اور حکومت بچانے کیلئے ہر حربہ خود ہی استعمال کرنا پڑرہا ہے۔ جن لوگوں کو یقین ہے کہ عمران خان اب بچ نہیں سکیں گے وہ اس کے لئے یہ دلیل دے رہے ہیں کہ عمران اس وقت بدترین بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ کیونکہ اپوزیشن اور میڈیا کے خلاف ان کا بے قابو لہجہ صاف صاف چغلی کھارہا ہے کہ وہ سمجھ گئے کہ خطرہ کتنا سنگین ہے۔ پھر یہ بھی ہماری تاریخ کا سبق ہے کہ جو حکمران یہ سمجھتا ہے کہ اس کا سورج غروب ہورہا ہے وہ کبھی امریکہ کو اس کا مورد الزا م ٹھراتاہے ' کبھی اسلام کیلئے اپنی خدمات کے سبب خود کو ہٹانے کا سبب بتاتا ہے۔ اگر آپ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ عمران خان شروع دن سے ریاست مدینہ کی بات کررہے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ اس حوالے سے ان کے قول و فعل میں کتنا تضاد ہے۔ ریاست مدینہ کی پہلی پہچان ہی یہ تھی کہ وہاں حکمران عام شہری کی طرح زندگی گزارتا تھا۔ اس وقت ہر شہری حکمران سے یہ پوچھنے کا حق رکھتا تھا کہ آپ کے پاس ایک چادر کے بجائے دو چادریں کیوں ہیں تو اس شہری کو اسے مطمئن کرنا پڑتا تھا۔ جبکہ کروڑوں لوگ چھت سے محروم ہیں' جبکہ یہاں حکمرا ن محلوں میں رہتے ہیں۔ عمر بن عبدالعزیزؓ کی مثال لیں تو وہ ایک مالدار شخص تھے لیکن حکمران بننے کے بعد انہوں نے ساری دولت عام لوگوں میں تقسیم کردی‘ عام شہری کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ ریاست مدینہ کے حکمران عاجزی‘ انکساری‘ شرافت‘ رواداری اور ایمانداری کی مثال تھے لیکن یہاں پر عمران خان نے ہمیشہ اپنے مخالفین کو برے ناموں سے پکارا۔ جبکہ ریاست مدینہ کے حکمران مخالفین تک کو دعائیں دیتے تھے۔ وہ قرآنی احکامات پر چلنے کو اپنا بنیادی فریضہ سمجھتے تھے۔ جبکہ عمران اپنے سیاسی اور صحافتی مخالفین کو برے القابات سے پکارتے ہیں۔ عمران نے جو کچھ بھی کیا لیکن ان کے دور حکومت میں کبھی بھی شریعت اور ریاست مدینہ کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ عمران کے اقدامات کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سب ایسا ہی دکھاوا ہے۔ عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سنجیدگی سے تحقیق اور تحلیل نفسی کی ضرورت ہے کہ آج جہاں پاکستان ہے۔ 1971ء کے بعد بچا ہوا پاکستان۔ یہاں ابتدا سے مال و زر کو بصیرت اور بصارت پر فوقیت کیوں حاصل رہی ہے۔ ذرا بتائیے کہ ہمارے قائدین کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں میں سفر کیوں کرتے ہیں۔ اربوں روپے کی حویلیوں اور محل نما اقامت گاہوں میں کیوں رہتے ہیں۔ عوام سے تعلق استوار کرنے کے بجائے خواص سے پینگیں کیوں بڑھاتے ہیں۔ پارلیمانی نظام شروع سے انتشار اور ناانصافی کا سرچشمہ ہے۔ ہم کیوں پسند کرتے ہیں یہ عوام کا انتخاب ہے یا جاگیرداروں' سرمایہ داروں کا تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کا آئینی حق ہے۔ لیکن عوام کے بھی کچھ آئینی حقوق ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد ان کیلئے کیا کیا راحتیں لے کر آئے گی۔ کون وزیراعظم ہوگا؟ اس کی اقتصادی تعلیمی اور مذہبی پالیسی کیا ہوگی۔ یہ 22 کروڑ لوگ کب تک یوں ہی دوڑتے رہیں گے۔ بھٹکتے رہیں گے۔ کب تک امیدوں' وعدوں اور دلاسوں کے سہارے وقت گزارتے رہیں گے۔ کون رہتا ہے کون جاتا ہے ان کو اس سے کیا غرض وہ تو ان اچھے دنوں کی آس لگائے بیٹھے ہیں نہ جانے کتنے 365 دن اور گزر جائیں۔ نہ امیدوں کے دریاؤں کا رنگ بدلا' نہ سورج کی تمازت میں کمی آئی۔ دعا کیجئے ہاتھ اٹھاکر اللہ رب العزت کے حضور کہ دکھوں کی ان کہی کہانی اور مشکلات اور مصائب کی یہ گھڑیاں ختم ہونے میں زیادہ دیر نہ لگے۔ (ختم شد)