حکمرانوں اور پاکستان کی عوام کے درمیان ہزاروں نوری برس کا فاصلہ ہے، ان کے اقتدار کے قلعوں کی دیواریں اتنی بلند ہیں کہ انہیں عوام پر گزرنے والی تکلیف اور مصیبت کا اندازہ نہیں ہوتا، حالات یہ ہیں کہ لوگوں کے لیے بچوں کی اسکول کی فیسیں دینا مشکل ہوگیا ہے۔ تین وقت کی روٹی کھانے والوں نے دو وقت کا کھانا بنانے والوں نے ایک وقت کھانا پکانا شروع کر دیا ہے۔اور جو پہلے ہی بمشکل ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں ان کی حالت نہ ہی پوچھیے۔ مزدور اور دیہاڑی دار دوپہر کا کھانا تندور سے روٹی اور چنے لے کر کھاتے ہیں۔تندور کی سادہ روٹی بھی مزدور کی ہلکی جیب پر بھاری پڑتی ہے، 20 روپے کی روٹی جس کا وزن پہلے سے کم ہے۔ ڈیڑھ سو روپے سے کم سالن کی پلیٹ دستیاب نہیں۔ 200 روپیہ مزدور کا ایک وقت کا کھانا مزدور کی عیاشی سستے سگریٹ اور چائے ہے۔ اب یہ سستی عیاشی بھی اس کی جیب پر بھاری ہے۔عوام خوفناک مہنگائی پر سراپا احتجاج ہیں۔ لوگ اگر سڑکوں پر نہیں نکلے تو حکمرانوں کو اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے بدعائیں دے رہے ہیں۔کیونکہ ان کے پاس اپنا غصہ نکالنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ایسے ہی حالات میں خود کشیاں بھی بڑھتی ہیں اور سٹریٹ جرائم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ہماری قسمت میں پتھر دل،مفاد پرست جھوٹے اور بے حس حکمران کیوں لکھے گئے تھے۔ایسا لگتا ہے کہ حکمران کسی مریخ کے سیارے کی پیداوار ہیں کہ جن کو زمینی حقائق کا اندازہ نہیں ہے۔ لکھنے والوں کو مایوسی کے اظہار سے گریز کرنا چاہیے لیکن بعض اوقات ہم مجبور ہو جاتے ہیں، حالات کی سنگینی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ساڑھے 24کروڑ پاکستانی مہنگائی کے ہاتھوں مشکل زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں ،حالات مسلسل زوال کی طرف جا رہے ہیں، بہت بری خبریں آرہی ہیں۔اور حقیقت میں تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں والی صورتحال ہے۔ بیرون ملک کے اخباروں اور نیوز ویب سائٹ پر پاکستان کے بارے میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے کیا حکمرانوں کو اس کی خبر ہے؟ آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض کی آخری قسط دے کر گویا اسے گروی رکھ لیا ہے۔بیرون ملک جانے کے خواہش مندوں میں صرف پاکستان کے نوجوان طالب علم بھی شامل نہیں بلکہ بال بچے دار، مڈ کیریئر پروفیشنل بھی باہر جانے کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔لیکن یہ جو حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں ان کے چہروں پر مجھے کوئی تشویش نظر نہیں آتی۔ اگر انہیں پاکستان کے 80 فیصد غریب عوام کی فکر ہوتی تو بہتر فیصلے لیے جاسکتے تھے۔ پاکستان کے غریب عوام کو غربت بے بسی اور کی تاریک دلدل سے نکالنے کے سو راستے دریافت کیے جا سکتے تھے اور سو کیا ہزار راستے موجود ہیں۔ چین بنگلادیش ہمارے سامنے غربت کی دلدل سے معاشی خوشحالی کی سمت رواں ہوئے۔چین کی غیر معمولی ترقی نے اسے دنیا کے سپر پاور کی قطار میں کھڑا کردیا ہے ۔ سن 2018 میں بننے والی حکومت جس میں ساڑھے تین سال عمران خان نے حکومت کی اور باقی کے سال سیاسی اتحاد پی ڈی ایم نے حکومت کے مدت ختم ہونے کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔یوں پی ٹی آئی ،پاکستان مسلم لیگ نواز پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں گزشتہ پانچ سالوں میں حکمرانی کے مزے لوٹے ہیں،تمام سیاسی جماعتوں کے طرز حکومت میں ایک چیز مشترک رہی کہ تمام تر مسائل کا بوجھ،اور ٹیکسوں کا بوجھ پاکستان کی عوام پر ڈالا گیا۔ عمران حکومت کے آغاز سے جو غیر معمولی انداز میں مہنگائی بڑھنا شروع ہوئی وہ شہباز حکومت تمام تر دعووں کے باوجود کسی طور کنٹرول نہ ہو سکی بلکہ بڑھتی ہی رہی۔ یعنی ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا ورنہ جو دکھ ہمیں تھے بہت لادوا نہ تھے۔ جاتے جاتے مہنگائی کا ہتھوڑا جو عوام کے سروں پر برسایا گیا ہے وہ پٹرول کی قیمتوں میں دو تین نہیں اکٹھے 20 روپے کا اضافہ ہے۔ انتہائی ڈھٹائی سے کہا گیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ یہی طے ہوا تھا۔ حیرت ہے کہ آئی ایم ایف بھی ہر دفعہ یہی مشورہ دیتی ہے کہ پسے ہوئے عوام کو مہنگائی اور ٹیکسوں کے بلنڈر میں ڈال کر اور جوس نکالو۔آئی ایم ایف بھی کوئی آدم خور مخلوق پر مشتمل ٹولہ ہے جو تیسری دنیا کے ترقی پذیر ملکوں کے مفاد پرست بے حس ظالم سیاست دانوں کی اور ہر طرح کی کارپوریٹ، لینڈ لارڈ خاکی، عدالتی اشرافیہ کے مفادات کا محافظ ہے۔آئی ایم ایف نے کبھی یہ کیوں نہیں کہا کہ ٹیکس پاکستان کی ہر نوع کے اشرافیہ طبقے پر لگنا چاہیے۔ قرض کی اگلی قسط دیتے ہوئے آئی ایم ایف نے کبھی یہ شرط کیوں نہیں لگائی کہ پاکستانی عوام کے پیسوں پر عیاشی کرتی سرکاری اور غیر سرکاری اشرافیہ کے مراعات پر پابندی لگائی جائے۔اور مراعات کے اس پیسے کو پاکستان کے غریب لوگوں کی زندگی آسان بنانے پر خرچ ہونا چاہیے وہ طبقے جسے دو وقت کی روٹی کھانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہیں۔اربوں کے قرض معاف کروانے والوں کی گردنوں پہ پاؤں رکھ کر قرض واپس لیں اور اس رقم سے پاکستان کی عوام کے لیے کاروبار کے مواقع پیدا کریں۔آن لائن اور آف لائن ڈیجیٹل ہنر اور غیر ڈیجیٹل ہنر سکھانے کے لیے گلی محلوں میں سرکاری طور پر اداروں کا جال بچھا دیں۔ہنر سیکھنے کو پاکستان کا کلچر بنا دیں۔پھر جو لوگ ہنر سیکھ لیں انہیں قرض حسنہ کی صورت چھوٹے قرضے دیں تاکہ وہ اپنے کاروبار سیٹ کریں۔ لیکن ایسا کلچر بنانے کے لیے انسان دوست حکمران درکار ہیں جن کی سمت درست ہو جن کا کوئی ویژن ہو جو اپنی حکومتیں آئی ایم ایف کی قسط کے سہارے پہ نہ گزاریں۔ آ خری بات یہ کہ عوام کا مطالبہ ہے کہ ہر طرح کی مقدس اور غیر مقدس اشرافیہ کی سرکاری مراعات بند کردی جائیں۔کیونکہ اس ملک میں لوگ بھوک اور غربت کے ہاتھوں جرائم بھی کر رہے ہیں اور خودکشیاں بھی کر رہے ہیں۔