سابق صوبہ سرحد کا نام بدل کر خیبر پختونخوا رکھا گیا‘اب اس نام پر اعتراض ہوا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ نیا نام صرف پختونخوا رکھا جائے۔ مطالبہ ایک بل کی شکل میں پشتون موومنٹ کے محسن داوڑ نے قومی اسمبلی میں کیا۔حکومت نے مطالبے کی مخالفت نہیں کی اور بل قائمہ کمیٹی کو پیش کر دیا گیا۔خیال ہے کہ زیادہ تر اپوزیشن جماعتیں بھی مخالفت نہیں کریں گی۔ بظاہر اعتراض یہ ہے کہ نام لمبا اور بے جوڑ ہے۔ہوا یہ تھا کہ صوبے کا نام پیپلز پارٹی کی حکومت نے بدل کر پختونخوا ہی رکھا تھا لیکن مسلم لیگ نے اس کے شروع میں خیبر کے لفظ کا اضافہ کرا دیا۔تب سے یہ لمبا اور بے جوڑ نام چل رہا ہے۔ لوگ پورا نام نہیں لیتے‘محض کے پی کہہ دیتے ہیں جس سے صوبے کا نام رکھوانے کا مقصد ہی بے مقصد ہو جاتا ہے۔ پختونخوا کا نام بدلنے کا قصہ بھی انوکھا ہے۔ انگریزی حکومت نے متحدہ ہندوستان کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں دو انتظامی علاقے قائم کئے۔ مشرق والے کا نام شمال مشرقی سرحد ایجنسی (نارتھ ایسٹ فرنٹیئر ایجنسی) رکھا۔ اس کا مخفف نیفا کے نام سے مشہور ہوا جہاں چین بھارت جنگ بھی ہوئی۔ بعدازاں بھارت نے اسے ’’ارونا چل پردیش‘‘ کا نام دے دیا۔ شمال مغرب میں بھی ایسی ہی ایجنسی بنائی گئی۔ وہ صوبہ بنا تو نام تقریباً وہی رہا یعنی شمال مغربی سرحدی صوبہ۔ اس علاقے میں پختونوں کی اکثریت ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ صوبے کو پختونستان کا نام دیا جائے جس پر پنجاب کے بعض حلقوں میں غدار غدار کی دہائی مچ گئی۔وجہ یہ کہ پختوستان کا ترجمہ پختونوں کا ملک بنتا ہے چنانچہ یہ مطالبہ کرنے والے الگ ملک بنانا چاہتے ہیں۔ عشروں پر عشرے گزر گئے‘نام بدلنے کا ہر مطالبہ مسترد کیا جاتا رہا۔کسی بھلے مانس نے یہ نہیں پوچھا کہ پختونستان کا معنے پختونوں کا الگ ملک ہے تو پھر بلوچستان نام کیوں قبول ہے۔ اس کا ترجمہ بھی تو وہی بنتا ہے کہ بلوچوں کا ملک۔ دراصل ستان کے معنے ملک نہیں‘جگہ کے ہیں۔بلتستان بھی ہے اور بہاولپور کے ڈویژن میں چولستان بھی۔ یہ دونوں ستان جائز ہیں تو پختونوں والا ستان کیوں ناجائز ہے۔اور ستان فارسی لفظ ہے اور ایران جا کر دیکھئے ‘کتنے ’’ستان‘‘ ہیں۔بلوچستان سیستان‘ خوزستان‘کردستان‘ گلستان(golestan) لارستان وغیرہ۔ایک ستان نورستان کے نام سے افغانستان میں بھی ہے اور ہاں ۔کراکل پاکستان کے نام سے ایک صوبہ ( نیم جمہوریہ)ازبکستان میں بھی ہے۔ اس پاکستان میں ک پر زیر نہیں ہے بلکہ یہ ساکن حرف ہے۔ ستان اور ستھان ایک ہی معنے رکھتے ہیں۔چنانچہ بھارت میں راجپوتانے کے صوبے کا نام راجستھان ہے‘ ہم اسے راجستان بھی پڑھتے ہیں۔یعنی راجوں کی جگہ۔ایران اور بھارت میں کسی نے اعتراض نہیں کیا کہ یہ تو الگ ملک لگتے ہیں۔ہندی زبان میں ملک کو راشٹر کہتے ہیں۔ صدر مملکت کو راشٹر پتی کہا جاتا ہے۔ وہاں ایک بہت بڑے صوبے کو مہاراشٹر کا نام دیا گیا ہے۔ کسی نے اعتراض نہیں کیا کہ راشٹر تو بھارت ہے‘یہ مہاراشٹر (سب سے بڑا ملک) کہاں سے آ گیا۔ لینڈ کا ترجمہ علاقہ بھی ہے اور ملک بھی اور کھنڈ کے بھی یہی معنے ہیں چنانچہ بھارت میں ناگا لینڈ ہے‘جھاڑ کھنڈ بھی اور اتراکھنڈ بھی۔اسی طرح پردیش کے معنے ملک کے بھی ہیں اور ملک کے علاقہ کے بھی(پردیس میں ر پر زبر ہے اور پردیش میں ر پر زبر یعنی پرادیش سے ملتی جلتی آواز ہے) چنانچہ بھارت میں کتنے ہی پردیش ہیں‘ہما چل‘ آدھرا‘ اتر‘ مدھیہ وغیرہ۔ کسی کو ان کے الگ ملک ہونے کا اندیشہ نہیں ہوا۔بہرحال‘زرداری حکومت نے اندیشہ فتنہ سے بچتے ہوئے صوبہ سرحد کا نام پختونستان رکھنے سے گریز کیا اور پختونخوا رکھ دیا جسے پختونوں نے قبول کر لیا۔ ٭٭٭٭٭ جہاں تک لمبے نام کا تعلق ہے تو گلگت بلتستان صوبے کا نام بھی سمارٹ نہیں اس لئے بہت سے لوگ صرف آدھا نام بولتے ہیں‘ یعنی گلگت میں یہ ہوا‘گلگت بہت خوبصورت ہے وغیرہ۔آدھا نام یعنی بلتستان غائب کر دیتے ہیں۔اس الجھن کی سلجھن بھی برآمد کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔لمبے نام دنیا کے کئی اور ملکوں میں بھی ہیں مثلاً بوسنیا ہرزی گونیا۔ ایسا ہی نام ایک روسی مقبوضہ ریاست ’’چیچنیا انگوشیتیا کا نام تھا۔روس نے اس کے دو حصے کر دیے۔ اب ایک چینچیا ہے تو دوسرا انگوشیتیا۔سب سے مزیدار لمبائی والا نام ایک بھارتی علاقائی یونٹ کا ہے۔ ملاحظہ ہو:داور اینڈ ناگر حویلی اینڈ دمن اینڈریو۔ اسے نیم صوبہ کہہ لیجیے‘اس طرح کہ قومی اسمبلی(لوک سبھا) میں اس کے دو ایم ایل اے ہوتے ہیں(ایم این اے) لیکن یہ باقاعدہ صوبہ نہیں ہے۔اس کا گورنر یا وزیر اعلیٰ نہیں ہوتا بلکہ ایڈمنسٹریٹر سے کام چلایا جاتا ہے۔چھ سات لاکھ آبادی کا یہ ’’صوبہ‘‘بھارتی ریاست گجرات کے جنوب مشرقی کونے اور اسی ریاست کے علاقے کچھ(کاٹھیاوار) کے جنوب میں دو علاقوں پر مشتمل ہے۔انگریزی دور سے چلے آنے والے نام جوں کے توں برقرار ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ستان اور ستھان کی بحث میں امر جلیل کا قضیہ بھی جوڑ لیں۔امر صاحب سندھ کے بین الاقوامی شہرت والے ادیب شاعر اور دانشور ہیں۔کچھ روز پہلے ایک گستاخانہ چشمک پر تنقید میں آ گئے۔چشمک سے علامہ اقبال مرحوم کا شعر بھی یاد آ گیا ؎ سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم بخیلی ہے ہے یہ رزاقی نہیں ہے کراچی کے ایک اخبار نے لکھا‘امر ہندو نام ہے اور گستاخانہ بھی کہ اس کا معنے نہ مرنے والا ہے‘یہ کفر ہے‘امر جلیل کافر ہو گئے۔امر ہندو نہیں‘ہندی نام ہے اور اردومیں بھی عام مستعمل ہے۔اس کا مترادف جاوید ہے۔تو جناب ‘اس فارمولے سے تو سبھی وہ لوگ بھی کافر ہو گئے جن کے نام میں جاوید آتا ہے۔