سرکاری ملازمین ریاست کی زینت اور معاشرے کی عزت ہوتے ہیں۔ یہ ملازمین حکومت سے زیادہ ریاست کے وفادار ہوتے ہیں کیونکہ یہ ریاست کی شان و شوکت‘ رعب اور دبدبے کے نمائندہ ہیں۔پاکستان جیسی نظریاتی ریاست میں ان کی اہمیت اور افادیت دوچند ہے۔ ملازمین کی ریاست سے وفادار وابستگی ریاست کی ترقی‘ سلامتی اور استحکام کی ضامن ہے حکومت آنی جانی اور ریاست قائم دائم ہے۔ میر جعفر اور میر صادق نے حکومت کے حصول کے لئے ریاست سے بالترتیب بے وفائی برتی اور نام نہاد برطانوی صیہونی تجارتی کمپنی East india companyنے ’’شیر ہند‘‘ ٹیپو سلطان کی جرأت مندانہ مزاحمتی شہادت کے موقع پر اعلان کیا کہ اب متحدہ سارا ہندوستان ہمارا ہے۔ ملازمین ریاست کی عزت وقار اور اعتبار ہوتے ہیں یہی سبب ہے کہ برطانوی سامراج ہندوستانی آبادی میں نمک کے برابر بھی نہیں تھے مگر وسیع و عریض جنگجو ہندوستان میں وفادار ہندی سرکاری ملازمین کی مدد سے سو‘ دو سو سال حکمران کرتے رہے انگریز برطانوی سرکار اپنے چھوٹے بڑے بلکہ ادنیٰ ملازم درجہ اول اور چوکیدار کے سرکاری وقار کا اس درجہ خیال رکھتی تھی کہ کسی نواب یا امیر کبیر فرد کو بھی ملازم سے بے ادبی سے کلام کا یارا نہ تھا۔ القصہ ریاست بہر طور اپنے ملازمین کا دفاع اور تحفظ اپنی ریاستی حکومتی آئینی اور قانونی ذمہ داری سمجھتی تھی سرکاری ملازمین کی حفاظت اور سہولت ہی ریاست میں عدل و انصاف قائم کرنے کا ذریعہ بنتی ہے یہی سبب ہے کہ پاک و ہند کی آبادی میں اآج بھی برطانوی سامراج کے عوامی نظم و ضبط عدل و انصاف اور شہریوں کی بھلائی اور رکھوالی کے گن گانے والے مل جائیں گے۔ جنگ عظیم دوم 1940-45ء کے بعد پاک و ہند کو آزادی ملی اور جاپان کو غلامی۔جاپان کی غلامی امریکی تھی امریکہ نے اقوام متحدہ کی مدد سے جاپان کا نظم و ضبط سنبھال لیا اور آج جدید جاپان امریکی ذیلی ریاست pnoteclonate stateکہلاتی ہے۔غلامی کی اس کیفیت میں بھی جاپانی عوام اور اشرافیہ نے امریکہ بے برملا کہا کہ جاپانی اپنا شعبہ تعلیم اور جاپانی زبان کے بارے میں امریکی اجارہ داری قبول نہیں کرے گی۔ یعنی تعلیم و تربیت اور زبان و ادب کسی بھی قوم کی آزادی(ہمت و غیرت) کی ضامن ہے قیام پاکستان میں دو اہم پہلو اردو زبان اور قرآنی رسم الخط کا تحفظ تھا اور دوسرا پہلو مسلمانوں میں تعلیم کی کمی تھی۔ سرسید احمد خان کی علی گڑھ تعلیمی تحریک اور انجمن حمایت اسلام نے اس کمی کو پورا کیا اور قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم نے فرمایا کہ پاکستان کی جنگ علی گڑھ یونیورسٹی کے میدان میں لڑی گئی ہے۔ قوم کی حیات علم و تہذیب اور تعلیم و تربیت میں مضمر ہے تعلیم قومی ضرورت اور بنیادی انسانی اخلاقیات کو مدنظر رکھ کر دی جاتی ہے۔ بدقسمتی آج پاکستان میں تعلیم و تربیت قومی ضرورت سے زیادہ عالمی مرضی کے مطابق دی جا رہی ہے ابتدائی تعلیم و تربیت قومی سلامتی میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتی ہے اور آج عالمی قوتوں اور اداروں نے NGOsکے ذریعے ابتدائی تعلیم کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے اعلیٰ تعلیم کے لئے جن کا ماٹو’’بدلا پاکستان‘‘Changing Pakistanہے یعنی پاکستان کو دو قومی نظریاتی اور اسلامی تعلیمات کے بجائے عالمی یکجہتی کی تعلیم درکار ہے۔ یہ تعلیمی یکجہتی احترام انسانیت سے زیادہ عالمی مفادات یکجہتی کے حصول کی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی ترقی سلامتی اور استحکام نظریاتی تعلیم و تربیت کو اولین ترجیح دینے پر منحصر ہے۔ پاکستان عرصہ دراز سے عالمی یکجہتی کے لئے کوشاں ہے جس کے باعث بعض اوقات پاکستان کے قومی مفادات اور ضروریات نظرانداز کی دی جاتی ہیں۔ عالمی یکجہتی کی پالیسی سے پاکستان کو قرضہ مع سود مل رہا ہے جس کے باعث پاکستانی ریاست صنعت و حرفت تعلیم و تربیت تجارت معاشرت کی بنیادی ضروریات سے عاری ہوتا جا رہا ہے جس کے باعث پاکستان کی ریاست پاتال یا اندھے کنویں میں گرتی اور دھنستی جا رہی ہے۔ پاکستان کی زمین زرخیز معدنی دولت سے مالا مال اور عوام محنتی جفا کش اور باہمت ہیں، مگر آج عالمی یکجہتی کے شوق فضول کے تحت پاکستانی عوام کی محنت و ہمت اور جفا کشی کو کچلا جا رہا ہے کبھی ریاست کے دیوالیہ پن کی وعید دی جاتی ہے اور کبھی صوبہ پنجاب کی۔ سارے ملک بشمول پنجاب میں ترقیاتی بلکہ میگا ترقیاتی پروجیکٹ چل رہے ہیں۔ امرا اور اشرافیہ میں دولت کی ریل پیل ہے اور جب یہ امراء مقتدر اشرافیہ میں شامل ہو جائیں تو ان کے ذاتی کھنڈرنما دفاتر آرائش و زیبائش کا نمونہ بن جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں نظام‘ انتظام اہتمام اور مقتدر اشرافیہ عالمی تقاضے اور اشرے پورا کرنے میں مصروف عمل ہے۔ ریاست اور معاشرے میں چولی دامن کا ساتھ ہے اگر عوام خوش اور خوشحال ہے تو ریاست بھی مضبوط اور فلاحی ہے نظام وہ اچھا جو ریاست کو مضبوط اور خوشحال بنائے سرکاری ملازمین ریاست کی جان ہیں۔ اگر ان کی جان نکال دیں گے تو ریاست بیکار عہدوں کا ڈھانچہ ہے جسے گرنے اور گرانے کے لئے پھونک مارنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی ،سرکاری ملازمین کو خوشی اور خوشحالی دیں۔ اگر آج سرکاری ملازمین بوجھ ہیں تو کل ریاست بھی بوجھ بن جائے گی۔ اگر عوام اور معاشرہ بوجھ بن گیا تو کل فوج بھی بوجھ بن جائے گی اور سول ملازمین کی طرح ان سے نجات کی راہ بھی ہموار اور آسان ہو جائے گی۔ بھارت جیسا پاکستان کا ازلی دشمن ریاست کو ریت کا ڈھیر بنا کر ختم کرنا چاہتا ہے اگر موجودہ نظام کار پاکستان کی ریاست عوام اور فوج کو مضبوط اور محفوظ نہیں بنا سکتا تو کل کوئی نہیں بچے گا پاکستان کے لاکھوں سرکاری و غیر سرکاری ملازمین عدم تحفظ کا شکار ہیں دیوالیہ پن کا بھوت دکھا کر ان کے منہ سے لقمہ چھنا جا رہا ہے۔ جنگ میں کامیابی فوج کی وفاداری ریاست اور عوام کی خوشحالی ‘ آسودگی اور یکسوئی میں مضمر ہے۔ ریاست کو مضبوط کرنا ہے تو ادنیٰ ملازمین کو بھی مضبوط اور آسودہ حال کریں وگرنہ بدحالی مقدر بن جائے گی جس کی ملک کی تجارت کرنسی کی خریدو فروخت اور قیمت اور قدر کی کمی بیشی رہ جائے‘اس کا انجام نوشتہ دیوار ہے اگر نیت اور ہمت سے غیر ملکی کرنسی ڈالر کو زمین بوس کیا جا سکتا ہے تو مقتدر اشرافیہ کو اپنی انتظامیہ خامیوں کو دور کرنا چاہئے، بجائے اس کے سرکاری ملازمین کو بوجھ سمجھ کر زمین بوس کرنے کے لئے پرعزم متحرک ہو جائیں۔ ریاست کا تحفظ سرکاری ملازمین کی وفاداری آسودگی اور خوشحالی پر منحصر ہے ان کی داد رسی کریں مقتدر اشرافیہ کو اپنا پرتعیش اخراجات بوجھ کرنا چاہیے بجائے اس کہ ملازمین کا پیٹ کاٹنے لگیں سرکاری ملازمین ریاست اور عوام میں وفاداری کا زینہ ہیں یہ زینہ مت گرائیں۔