میں تو تمام پارلیمانی اور عدالتی کارروائی کو بھول گیا۔ جب جناب علیم خان کی پریس کانفرنس سنی۔ یقین نہیں آیا کہ پروپیگنڈہ اتنا موثر بھی ہوسکتا ہے۔ یہ واویلا، یہ شہرت کہ کوئی ہو نہ ہو عمران خان امین اور صادق ہیں۔ یہ تو ایک خان صاحب کا ایک ایسا ساتھی کہہ رہا ہے جو ان کے دکھ درد‘ اچھے برے اور نشیب و فراز میں شریک تھا۔ ان کا ہمرکاب تھا۔ پھر علیم خان سے یہ سن کر مجھے زیادہ تعجب نہیں ہوا کہ انہیں سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے اورنیب کے کیس بنانے میں خان صاحب کی منشاشامل تھی۔ کیونکہ میں خان صاحب کے ایک ایسے ساتھی کی دل گرفتگی اور مایوسی کو دیکھ کر بہت پہلے ہی بھانپ چکا تھا۔ نجیب ہارون تو ان آٹھ افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے تحریک انصاف کے قیام کے وقت خان صاحب کا ہاتھ تھاما۔ میں ایسے ایک درجن پی ٹی آئی ارکان کو جانتا ہوں جو جب بھی ملے خان صاحب کے رویئے کے شاکی رہے۔ اب جب یہ سب سیاسی سرکس چل ہی رہا تھا کہ اس میں ایک انوکھا‘ ہنگامہ خیز اور تھرل سے بھرپور کردار کہانی میں داخل ہوگیا۔ عمران کی بہت بڑی کمزوری یہ رہی ہے کہ وہ اپنے قریبی ساتھیوں کو اگنور کرتے رہے۔ ہاں میں ہاں ملانے والا خوشامدی ٹولہ عمران کے چاروں طرف موجود تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2010ء سے لیکر 2018ء کے انتخابات تک عمران خان کی شہرت عوامی پذیرائی کے گھوڑے پر سوار تھی۔ میں نے12 سال قبل بھی یہی بات کہی تھی اور آج بھی اس پر قائم ہوں کہ سیاست عمران کی فیلڈ نہیں۔ سیاست میں رواداری‘ اصول پسندی اور باہم افہام و تفہیم بنیادی شرط ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک کرشماتی شخصیت کا مالک ہے۔ اس نے ایک پرجوش کرکٹ کھیلی۔ اس لئے جب اس نے قدم رکھا تو وہ نوجوانوں کا آئیڈیل بن گیا۔ یہ نوجوان دیوانہ وار اس کی طرف لپکے۔ لیکن وہ یہ اندازہ نہ کرسکا کہ ان کی کیا توقعات ہیں۔ وہ ان کے متعلق باتیں ضرور کرتا رہا‘ جو ان کے دل کو چھوتی رہیں۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اسے کچھ کر دکھانے کا موقع دیا تو ان کی تمام امیدیں اور توقعات ٹوٹتی دکھائی دیں۔ کیونکہ اس کا نہ ہوم ورک تھا نہ اس کے گرد اعلیٰ دماغ مشیر تھے۔ نہ اس کی حکمت عملی تھی۔ بس اس کی یہی کوشش رہی کہ اپنی باتوں سے اپنے مداحوں اور سپورٹرز کو زبانی یہ بتاتا رہے کہ وہ نہ جانے ان کیلئے کیا کررہا ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ پاکستان میں ان کے دور میں بیروزگاری نے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ ہاں وہ اپنی سیاسی ضرورت کے مطابق بیانیہ بنانے میں کامیاب رہے۔ وہ اپنی بات بڑے جوش سے کہنے کے عادی ہیں‘ لیکن ساتھ ساتھ وہ حقائق سے پہلو تہی کرتے ہوئے وہی بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو بات وہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے پورے دور میں اپنے آپ کو ایماندار اور باقی اپوزیشن کو بے ایمان اور چور کہتے رہے۔ لیکن سچی بات تو یہ تھی کہ وہ کسی کو ثابت نہ کرسکے۔ پھر ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ رہی کہ انہوں نے اپنی سیاست ان خطوط پر نہیں کی یعنی باہم رواداری‘ مکالمہ اور تمام اہم معاملات صلاح و مشورے کی ضرورت کو تسلیم کرنا۔ سیاست میں باہم آہنگی اپنی جماعت کو تنظیمی طور پر مضبوط کرنے کے اقدامات‘ تمام ساتھیوں میں یہ احساس اجاگر رکھنا کہ ان کا لیڈر ہر قیمت پر ان کے ساتھ ہے۔ وہ ان کے جذبات‘ خیالات اور احساسات کی قدر کرتا ہے۔ عمران خان اس خوبی سے بالکل عاری دکھائی دیئے۔ ان کی جماعتی صفوں میں جو بغاوت کا بھونچال آیا اس نے عمران کے سامنے بے شمار سوالات لاکھڑے کئے ہیں۔ سیاست میں بہت سے کمپرومائز کرنا پڑتے ہیں۔ عمران نے جتنے کمپرومائز کئے وہ شاید ہی کسی نے کئے ہوں۔ لیکن آپ ان کی اجزائے ترکیبی دیکھیں تو یہ اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے کئے گئے۔ جبکہ وہ اپنے ساتھیوں کو ناراض کرتے رہے۔ میں بھٹو صاحب کے دور کا ایک قصہ سناتا ہوں۔ بھٹو صاحب خود بڑے انا پرست تھے۔ اپنی بات پر اڑ جایا کرتے تھے۔ یہ شاید 1974ء کی بات ہے۔ مخدوم محمد زماں طالب المولیٰ ان سے ملاقات کیلئے ایوان وزیراعظم گئے۔ بھٹو مصروف تھے۔ ہالا کے مخدوم نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر اس انتظار کو انہوں نے اپنی بے عزتی سمجھا۔ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے‘ سیدھے ایئرپورٹ پہنچے اور کراچی کی فلائٹ میں سوار ہوگئے۔ بھٹو صاحب کو جب معلوم ہوا کہ مخدوم صاحب ناراض ہوکر چلے گئے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ اس وقت کراچی کی طرف محو پرواز ہیں۔ بھٹو صاحب نے اس وقت کے وزیراعلیٰ غلام مصطفی جتوئی کو غصے میں کچھ ہدایات دیں۔ لیکن جتوئی صاحب اسی وقت ایئرپورٹ چلے گئے۔ مخدوم صاحب کو اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھایا۔ پوری عزت و تکریم سے چیف منسٹر لاؤس لائے‘ پھر بھٹو صاحب کے ساتھ جتوئی صاحب نے خاصی دیر تک گفتگو کی۔ بھٹو صاحب کو احساس ہوگیا کہ ان سے غلطی ہوگئی۔ آپ یقین جانیں۔ بھٹو صاحب مخدوم صاحب کو منانے خود ہالا گئے۔ بتانے کا مطلب یہ تھا کہ اپنے وفادار اور مشکل وقت کے ساتھیوں کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور اگر کہیں کوئی غلطی بھی ہوجائے تو اسی تسلیم کرلینا چاہئے۔ بھٹو صاحب نے اوریانا فلاسی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بات بھی تسلیم کی تھی کہ جے اے رحیم کے ساتھ جو سلوک کیا گیا تھا وہ ان کی غلطی تھی۔ آج دیکھیں عمران خان خود مان رہے ہیں کہ انہوں نے سادہ اکثریت حاصل کئے بغیر اقتدار میں نہیں آنا چاہئے تھا۔ اس طرح میں اپنی پوری وقت میں معاملات کو اپنی مرضی سے نہ چلاسکا۔ مجھے اتحادیوں کی وہ باتیں بھی ماننی پڑیں جو میری منشاء کے خلاف تھیں۔ عمران خان نے بھی 4 سال اس نظام کا ذائقہ چکھ لیا اور چسکابھی لے لیا۔ طاقت کا اپنا قانون ہوتا ہے۔ اپنا آئین ہوتا ہے‘ لیکن طاقت اور حمایت کی کوئی حدود نہیں ہوتی۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ عمران کا ساتھ چھوڑ جانے والے ممبران اسمبلی وہ موسمی پرندے ہیں جو 2018ء سے پہلے اپنے آشیانے چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے اور اب آئندہ الیکشن کیلئے نئے گھونسلوں کی تلاش میں ہیں۔ 2018ء میں بھی ان پرندوں کا ضمیر جاگا تھا اور یہ عمران خان کے ڈربے میں جا بیٹھے تھے اور اب عمران خان کو مشکل میں دیکھ کر ایک بار پھر اپنے ضمیر کی آواز پر پھڑ پھڑاکر اڑتے جارہے ہیں۔ عمران خان سے بغاوت کرکے سندھ ہاؤس میں پناہ لینے والے یہ پرندے اب نئی صورتحال میں کیا سوچ رہے ہیں۔ یقینا سب کی نظریں اب سپریم کورٹ کی طرف ہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دینے کے حوالے سے دلائل مکمل ہوگئے ہیں۔ فیصلہ جو بھی ہو لڑائی اب پارلیمان سے نکل کر عدالت میں پہنچ چکی ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے جو طوفان برپا کیا ہوا ہے اس نے عمران خان سے اختلاف کرنے والے تمام لوگوں کو بیدار کردیا ہے۔ علیم خان کا موقف اور دھواں دھار پریس کانفرنس اس کی غماز ہے کہ ان کے دل و دماغ میں کیا کیا ہے۔ اس طرح سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور نے بھی اپنے لیڈر کے خلاف لفظی بمباری میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔