قومی اسمبلی میں جس طرح وزیر قانون فواد چودھری نے تجویز پیش کی، ڈپٹی سپیکر نے تحریک عدم اعتماد کو غیر قانونی قرار دے کر مسترد کردیا۔ ایوان کی کارروائی دیکھ کر یوں احساس ہوتا تھا کہ کسی کلاس روم میں بیت بازی کا مقابلہ ہورہا ہو اور ایک گروپ دوسرے گروپ کو کہے کہ تمہارے شعر کا قافیہ اور ردیف درست نہیں تھا اس لیے تم ہار گئے۔ یہ تو ایسا ہی تھا کہ چمکتے سورج اور دمکتی روشنی میں کوئی بیٹسمین یقینی شکست سے بچنے کے لیے امپائر سے اپیل کرے کہ اسے گیند نظر نہیں آ رہی۔ ہم پہلے بھی کہہ رہے تھے کہ عمران خان کو اس موڑ پر ایک باوقار انداز اختیار کرنا چاہیے‘ انہیں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنا چاہیے جیسے انہوں نے اعتراف کیا کہ میری سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ میں نے سادہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود اقتدار سنبھال لیا جو نہیں سنبھالنا چاہیے تھا۔ انہیں اس وجہ سے بار بار بلیک میل ہونا پڑا۔ بہرطور جو کچھ ہوا افسوسناک تھا۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ عمر ان کو بڑا نقصان یہ ہوگا کہ انہوں نے پاکستان کے عوام کو بتانے کی کوشش کی تھی کہ امریکہ نے پاکستان میں حزب مخالف کے سیاست کاروں کے ساتھ مل کر سازش کی مجھے ہٹانے کی کوشش کی گئی اب وہ یہ ایڈوانٹیج بھی کھو دیں گے۔ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس سے یہ انداز تو ہوتا ہے کہ وہ خط جو عمران خان دکھارہے ہیں اس میں کچھ نہ کچھ اندیشے‘ خطرات اور دھمکی آمیز لہجے کی بازگشت موجود ہے‘ لیکن عمران خان نے اسے جس طرح سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی وہ کچھ لوگوں کو ہضم نہیں ہورہا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ معاملہ اتنا سنجیدہ اور پیچیدہ تھا تو اس پر کارروائی اتنی دیر میں کیوں شروع کی گئی اور اس سلسلے میں حکومت کا باقاعدہ اور سفارتی سطح پر ایکشن لیا جانا چاہئے تھا اور ایسا اب بھی کرنا چاہئے۔ دوسری طرف اس حوالے سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس خط کو وزیر خارجہ کی ہدایت پر پاکستانی سفارتکار نے ایسے نکات پر تیار کیا جو بظاہر سنجیدہ نظر آئیں‘ ان کا خیال تھا کہ چونکہ بازی عمران کے ہاتھ سے نکل رہی ہے اس لئے وہ اس خط سے سیاسی طور پر فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ انڈیپنڈنٹ اردو کے مطابق انہوں نے ایک سوالنامہ امریکی وزارت خارجہ کو دیا جس میں ان سے سوال کیا گیا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے اس موقف سے واقف ہیں جس میں انہوں نے پاکستان میں تحریک عدم اعتماد کیلئے فارن فنڈنگ اور دھمکیوں کا تذکرہ کیا ہے جس پر امریکی وزارت خارجہ نے اپنی لاعلمی اور حیرت کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے ایک بات خود تسلیم کررہے ہیں کہ یہ خط پاکستان کے سفیر کی طرف سے لکھا گیا ہے۔ اس سے تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک Assesment Paper ہے جس میں سفیر موصوف نے امریکی حکام سے اپنی ملاقاتوں اور ان کے اعلیٰ سفارتی اہلکاروں کے ذہن میں موجود خدشات‘ اندیشوں اور پاکستانی وزیراعظم کے متعلق ان کی رائے کا اظہار کیا ہے‘ جس کی وہ تصویر کشی جو سفیر موصوف نے کی ہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم ان کے حالات کی منظر کشی کررہے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد اگر آپ ایسے پیپرز پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ ہر بڑے اور اہم فیصلوں سے قبل یہ تجزیاتی رپورٹیں Assessment Paper بنتے رہے ہیں۔ جن سے مختلف ملکوں کی رائے ان کے ارادے‘ موقف اور ذہنوں میں رینگتے سوالات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اس میں وہ مشاہداتی رپورٹیں بھی شامل ہوتی ہیںجو ازخود بھیجی جاتی ہیں اور بعض اعلیٰ ترین سطح پر تیار کروائی جاتی ہیں۔ جب عراقی فوج نے کویت پر قبضہ کیا تو صدر جارج بش سینئر نے کولن پاول اور ڈک چینی کو مشرقی وسطیٰ بھیجا تاکہ وہ اتحادی فوجوں کے کمانڈر جنرل نارمن شیراسکوف سے باہم صلاح مشورہ کرکے یہ طے کریں کہ عراقی فوج کو کویت سے نکالنے کیلئے کب اور کیسے زمینی کارروائی کرنی چاہئے۔ ڈک چینی اور کولن پاول واپس واشنگٹن پہنچے۔ انہوں نے صدر امریکہ کو ایک Assessment Report پیش کی کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر فلاں تاریخ کو عراقی فوج پر حملہ کیا جائے تو یہ اس کارروائی کیلئے بہترین وقت ہوگا۔ جارج بش نے نارمن شیراسکوف سے دریافت کیا کہ اس سلسلے میں اس کی رائے کیا ہے۔ اتحادی فوجوں کے کمانڈر نے صدر امریکہ کو بتایا کہ ان کی تجزیاتی رپورٹ درست ہے‘ لیکن ستاروں کی چال بتارہی ہے کہ اگر ہم اپنے تجزیئے کے مطابق تاریخ سے تین دن پہلے گراؤنڈ اٹیک کریں تو ہم آسانی سے بڑی سرعت کے ساتھ یہ کام کرسکتے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ تمام تیکنیکی تجزیوں کے برخلاف صدر امریکہ نے ستاروں کی چال کے مطابق اپنے کمانڈر کو حکم دیا کہ ان کے پاس جتنی قوت موجود ہے وہ سب کی سب بروئے کار لائیں اور عراقی فوج کو کویت سے نکالیں۔ جب دوسری جنگ عظیم میں جاپان ایئرفورس نے امریکہ کے اہم سمندری بیس پرل ہاربر پر حملہ کیا اور امریکیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تو اس وقت امریکہ اور برطانیہ کے فوجی کمانڈرز نے ایک تجزیاتی رپورٹ بناکر امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم سرونسٹن چرچل کو بھیجی کہ شاید اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں جاپان اور جرمنی کے خلاف فیصلہ کن حملہ کرنا چاہئے۔ اس حملے کی نوعیت کیا ہوسکتی ہے۔ چرچل نے صدر امریکہ سے پوچھا انہوں نے گہری سوچ اور مختلف تجزیات کی روشنی میں کہا: شاید اب ہمیں جاپان سے بدلہ لینے اور جنگ کا نقشہ اپنے حق میں بدلنے کیلئے ایٹم بم کا استعمال کرنا پڑے گا۔ دونوں رہنماوں نے جب فیصلہ کرلیا اور فوجی ماہرین نے بہترین ٹارگٹس کیلئے ہیروشیما اور ناگا ساکی کا نام تجویز کردیا تو ایکشن شروع ہوا۔ ایٹم بم کی تباہ کاریاں جن کی یاد دنیا آج تک منارہی ہے، لاکھوں انسان لقمہ اجل بن گئے۔ ہزاروں اپاہج اور معذور ہوگئے۔ سینکڑوں قسم کے امراض نے جاپان میں قدم گاڑ لئے۔ جس کے اثرات ربع صدی تک ایک ڈراونے خواب کی طرح دنیا کو ڈراتے رہے۔ پاکستان میں متعین امریکی سفیر مسٹر فارلینڈ نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا تھا کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران 15 ستمبر 1965ء کو بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری اور 17 ستمبر کو صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے امریکی صدر لنڈن بی جانسن کو ایک ہنگامی خط جسے سفارتی اصطلاح میں SOS کہتے ہیں‘ لکھا کہ جنگ کو رکوانے کیلئے وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ کیونکہ اس وقت یہ دونوں ممالک ایک طویل جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ ان کے وسائل بڑی بری طرح جنگ میں ضائع ہورہے تھے۔ پھر امریکی مداخلت سے 23 ستمبر کو دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی ہوگئی۔ (جاری ہے)