امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو مخاطب کرتے ہوئے یوں اظہار کیا تھا کہ امریکہ سعودی عرب سے دوستی کا ہاتھ کھینچ لے تو سعودی بادشاہت پندرہ روز سے زیادہ قائم نہیں رہ سکتی۔ 1973ء کی اسرائیل مصر جنگ میں امریکہ نے انوارالسادات کو سبق پڑھانے کی کیا دھمکی دی تھی۔ لیبیا کے معمر قذافی کے خلاف کس طرح سازشوں کا جال بچھایا گیا۔ 1974 میں سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے پر امریکہ نے سعودی عرب کے تیل کے کنوؤں پر قبضہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس پر فیصل نے کہا تھا کہ میں نے اپنے کنوؤں کے چاروں طرف بارودی سرنگیں بچھادی ہیں۔ ہم امریکی ایکشن سے پہلے اپنے کنوؤں کو اپنے طور پر اڑا دیں گے۔ ہم واپس اونٹوں‘ کھجوروں اور قہوہ پر آجائیں گے لیکن سرنڈر نہیں کریں گے۔ ناجانے کتنے واقعات ہیں۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں ہیں۔ کتابیں بھری پڑی ہیں۔ نہ جانے کتنی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ سازشیں ہوتی ہیں۔ یہ بڑا طویل قصہ ہے۔ گزشتہ ایک صدی میں جو کچھ ہوا۔ اگر ہم اسے لکھنا چاہیں تو لکھتے جائیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب سے بوسنیا میں ہونے والے واقعات صدام حسین کے خلاف کارروائی سے لیکر مشرق وسطیٰ میں امریکی مداخلت۔ افغانستان کی 40 سال کی صورتحال سب کچھ۔ چونکا دینے والا خان صاحب کو جو خط ملا ہے وہ ظاہر ہے پاکستانی سفیر نے لکھا ہے۔ یہ ان کا مشاہدہ اور اندازہ ہے۔ انہوں نے یہ نتیجہ ملاقاتوں اور مختلف سفارتکاروں اور اہم لوگوں سے گفتگو کے نتیجے میں ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔ جو ہمارے صحافی دوستوں سے معلوم ہوا ہے۔ وہ تو یہی لگتا ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو براہ راست نہ کسی نے ٹیلیفون پر دھمکی دی نا تحریری طور پر۔ دھمکی تو وہ تھی جو ڈاکٹر ہنری کسنجر نے لاہور کے وی آئی پی لاؤنج میں بھٹو کو دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا اگر آپ نیو کلیئر پروگرام کو آگے بڑھانے سے باز نہ آئے، اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی کو پورے عرب میں پھیلادیں گے تو پھر یاد رکھیں کہ ہم آپ کو عبرت کی تصویر بنادیں گے۔ دھمکی تو وہ تھی جو 60 سال قبل امریکی صدرجان ایف کینیڈی نے روس کو دی تھی۔ کینیڈی نے کہا کہ اگر روسیوں نے 48 گھنٹے میں میزائل کیوبا سے نہ ہٹائے تو جب اگلے دن کا سورج طلوع ہوگا تو روس نام کا کوئی ملک اس کرہ ارض پر موجود نہیں ہوگا۔ دھمکی تو وہ تھی جو کولن پاؤل نے صدر مشرف کو ٹیلیفون کرکے بتایا تھا کہ صدر امریکہ چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں واضح طور پر بتادیں کہ آپ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف ہمارا ساتھ دیں گے یا نہیں۔ آپ کا جواب ہاں یا نہ میں ہونا چاہئے۔ دھمکی تو وہ تھی جب 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارت نے موناباؤ کی سرحد سے پاکستان میں داخل ہونے اور حیدر آباد سے کراچی کو پاکستان سے کاٹ دینے کی پلاننگ تیار کی تھی۔ اندرا گاندھی اپنی بائیو گرافی میں لکھتی ہیں کہ ہم نے یہ پلان کرلیا تھا۔ میں نے فوجی کمانڈروں سے صلاح ومشورے مکمل کرلئے تھے اور اس سے پہلے کہ میں بھارتی فوج کو آگے بڑھنے کا حکم دیتی۔ مجھے روسی صدر نے فون کرکے بتایا کہ صدر امریکہ رچرڈ نکسن نے آپ کیلئے مجھے یہ پیغام دیا ہے کہ میں آپ کو بتادوں کہ Enough is Enough۔اگر بھارت نے پاکستان پر فوج کشی کی تو انہیں 72 گھنٹے میں امریکی فوج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بعد میں صدر نکسن نے کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ میں نے اپنے ایئر بونڈ ڈویژن کے کمانڈرز کو تیار رہنے اور بحر ہند اور خلیج فارس میں موجود طیارہ بردار امریکی بحری بیڑوں کو بھی جلد از جلد کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں پہنچنے کا حکم دیا تھا کہ اگر بھارت نے کوئی محاذ آرائی کی تو اس کی فوج کو وہیں روکا جاسکے۔ اندرا گاندھی نے لکھا تھا کہ روسی صدر نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ ایسی غلطی مت کرنا۔ ایسی سینکڑوں ہزاروں مثالیں موجود ہیں جب ایک ملک دوسرے کو دھمکی دیتا ہے۔ اپنا مقصد اور مدعا بیان کرتا ہے۔ محض کسی مشاہداتی تجزیئے خواہ وہ کتنا ہی حقیقت پر مبنی کیوں نہ ہو، اگر وہ آن دی ریکارڈ نہیں ہے تو پھر اس کی ایسی کوئی حقیقت نہیں کہ اس کا شور کرکے ہم اس ملک کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کریں اور اسے ضرورت سے زیادہ ہوا دیں۔ اس کے علاوہ ایک معاملہ اپنی رائے اور خواہش کے اظہار کا ہوتا ہے۔ سفارتی تعلقات میں ایسی ہی زبان کہی جاتی ہے یا لکھی جاتی ہے۔ اس کی میں آپ کو دو مثالیں دیتا ہوں۔ جب بل کلنٹن پاکستان کے چند گھنٹوں کے دورے پر پاکستان آئے تو انہوں نے اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر کی رہائشگاہ پر پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس ارشاد حسن سے ملاقات کی تھی اور ان کو اس خواہش سے آگاہ کیا تھا کہ وہ جنرل مشرف کو بتادیں کہ نواز شریف کے ساتھ وہ سلوک ہرگز نہ کیا جائے جو بھٹو کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اسی طرح جب نواز شریف کی رہائی کا معاملہ آیا تو بعد میں ایڈیٹرز کے ساتھ ایک ملاقات میں جنرل پرویز مشرف نے جناب مجید نظامی کے اس سوال پر کہ نواز شریف کو سزا معاف کرکے کیسے چھوڑ دیا گیا تو کمانڈو جنرل نے اپنے مخصوص کھلے ڈھلے انداز میں بتایا کہ جب پرنس ترکی میرے پاس آئے تو رات کے دو بجے تھے۔ مجھے پہلے بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب کے دو شاہی طیارے نور خان ایئرپورٹ پر اترے ہیں۔ انہوں نے آکر مجھے ایک خط دیا‘ یہ خط اس وقت سعودی فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیز کی طرف سے تھا جس میں انہوں نے لکھا کہ بحیثیت کسٹوڈین خانہ کعبہ اور روضہ رسول و مسجد نبوی میری خواہش ہے کہ نواز شریف خانہ کعبہ میں روزہ میرے ساتھ کھولیں۔ پھر میرے لئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا کہ میں نے فوراً انہیں سعودی عرب بھجوانے کیلئے انتظامات کرائے۔ بس سب کارروائی ایک خانہ پری تھی۔ کیونکہ مجھے اس سے پہلے لبنان کے وزیراعظم نے جو نواز شریف کی رہائی کے حوالے سے ثالث کا کردار ادا کررہے تھے انہوں نے بتادیا تھا کہ ولی عہد شہزادہ عبداللہ ہر قیمت پر نواز شریف کی رہائی چاہتے ہیں جو اس وقت عملی طور پر سعودی بادشاہ کی ذمہ داریاں نبھارہے تھے کیونکہ شاہ فہد ان دنوں بیمار تھے۔ خان صاحب ایسی خواہشات ایسے دباؤ ایسی دھمکیوں سے بین الاقوامی تاریخ بھری پڑی ہے۔ یہ مختلف ملکوں کے مفادات ہوتے ہیں وہ اپنی بات اسی طریقے سے کہتے ہیں‘ وہ اشاروں‘ کنایوں میں باتیں کرتے ہیں‘ آپ تو یہ باتیں سب کے سامنے لے آئے۔تاریخ بڑی کڑوی‘ کسیلی اور تلخ و نکیلے حقائق پر مرتب ہوتی ہے۔