ہر مسئلے میں سَر پھنسانے والا کبھی نہ کبھی مسئلے کا شکار ضرور ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب سَر پہ چوٹ لگتی ہے تو وہ دِل کی چوٹ بھلادیتی ہے۔ اِس وقت پنجاب بھر میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطًََ پانچ ہزار سے زائد ایمرجنسیز کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ جن میں تین ہزار میڈیکل، گیارہ سو کے قریب ٹریفک حادثات، پچاس سے قریب آتشزدگی، سو کے قریب جرائم، ڈیڑھ سوسے زائد ڈیلیوری، سوا سو کے قریب عمارتوں سے گرنے جبکہ کرنٹ لگنے کے تیس سے زائد واقعات روزانہ کی بنیاد پر رونما ہوتے ہیں۔کل ایمرجنسیز کے ڈیٹا میں گیارہ سو سے زائد ٹریفک حادثات پنجاب بھر میں روزانہ کی بنیاد پر رونما ہورہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ سو سے زائد حادثات پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں رونما ہوتے ہیں۔ ایمرجنسی سروسز کے ڈیٹا کے تخمینے کے مطابق اِن ٹریفک حادثات میں اَسی سے نوے فیصد گھرکے واحد خود کفیل نوجوان حضرات شکار ہوتے ہیں۔ اْن مْتاثرین میں سے پھر سَتر سے اَسی فیصد نوجوان متاثرین وہ ہوتے ہیں جو موٹربائیک چلاتے ہوئے حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان موٹرویز، ایمرجنسی سروسز ڈیپاٹمنٹ، قومی اور صوبائی ڈزاسٹر منیجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اکثر اوقات یہی دیکھا گیا ہے کہ نوجوان متاثرین موٹر سائیکل چلاتے وقت سیفٹی ہیلمٹ کا استعمال نہیں کرتے۔ جس کے نتیجے میں وہ دورانِ ڈرائیونگ سَر کی انجری کا شکار ہوتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کے مطابق سَر کی چوٹ پورے انسانی جسم کو ہلا کے رکھ دیتی ہے۔ اگر یہ چوٹ شدید ہو تو آدمی کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔سیکٹر کمانڈر N-5سینٹرل ملتان -2 رینج سپرنٹینڈنٹ آف پولیس نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹرویز مقصودانجم ڈوگر نے اِنہی الفاظ کو دہراتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا ملک ہے اور اِسے ہم نے ہی محفوظ بنانا ہے۔سکول، کالج اور جامعات میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات ہمارا مستقبل ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے مضبوط مستقبل کے ضامن ہیں۔اگر آج ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے اِنہیں محفوظ بنائیں گے تو کل یہی نوجوان ہمارے محفوظ ملک کے ضامن ہونگے۔ بلاشبہ پاکستان موٹروے پولیس ملک بھر میں ٹریفک حادثات میں متاثرین کو خدمات فراہم کررہی ہے۔ مقصود انجم ڈوگر نے یہ درست فرمایا کہ زیادہ تر افراد کو یہ علم ہی نہیں کہ موٹرویز پر سفر کرتے ہوئے اگر ہم کسی ٹریفک حادثہ کا شکار ہوتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ بلکہ ہمارے عزیز سپرنٹنڈنٹ سید رضوان احمد شاہ کی یہ بات عین الیقین کی مانند ہے کہ ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ موٹر وے پر سفر کرتے وقت ہم نے 130نمبر پہ کال کرتے وقت کون سا کوڈ ڈائل کرنا ہے؟ اکثر یہی سوال پوچھنے کیلئے ہم ایک دوسرے کوکال کررہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ 15پر، 1122یا پھر 130پر کال کرنے کے لئے ہمیں کسی کوڈ کو ملانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں پہلے ہمیں خود جانا چاہئے کہ موٹرویز پر دورانِ ڈرائیونگ کن چیزوں کا خیال کرنا چاہئے؟ پھر اپنے بچوں کو آگاہی دینی چاہئے۔ یقین جانئے یہ جاننا ازحد ضروری ہے۔ایک گاڑی میں چار افراد سوار ہیں تو اْن میں سے کسے سیٹ بیلٹ باندھنی چاہئے؟ نیشنل ہائی ویزاینڈ موٹرویز بہاولپور رینج میں آگاہی مہم کے انچارج محمد عامر کے بقول دوران ِ ڈرائیونگ صرف ڈرائیور کو ہی نہیں بلکہ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ اور پچھلی سیٹوں پر بیٹھے سبھی افراد کو سیٹ بیلٹ باندھنا ضروری ہے۔ کچھ عرصہ قبل سبھی بسوں میں ہر سیٹ کے ساتھ سیٹ بیلٹ لگا ہوتا تھا۔بس میں سوار ہوتے ہیں یہ اعلان کیا جاتا تھا کہ تمام مسافر سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔ آج بھی شاید اچھی کمپنی کی بسوں میں یہ سہولت موجود ہے۔ سیٹ بیلٹ نہ لگے ہونے کی صورت میں سَر جس شدت سے ڈیش بورڈ یا پھر سامنے والے شیشے سے ٹکراتا ہے اْسی شدت سے انسانی موت واقع ہوسکتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد جو حال ہی میں ’علم کی راہداریاں‘ کے نام سے ایک خوبصورت کتاب صفحہ ِ قرطاس پہ لائے ہیں۔سائنس و معاشرہ کے علم پر کمال دسترس رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر چونکہ وہ فزکس کے استاد ہیں اور دنیا میں وقوع پذیرہونے والے ہر واقعہ کو قانونِ فزکس سے ماپنے کی کوشش کرتے ہیں۔کوشش کرتے ہیں کہ فزکس کی اْن ایجادات پر بات کی جائے جن سے انسانی معاشرہ کی فلاح و بہبود کا کام آگے بڑھا ہے۔ اْن کا موقف اِس حوالے سے انتہائی قابل ِ تعریف ہے۔ بزدار صاحب کے مطابق ہمیں ٹریفک حادثات کے مطابق اپنے طلبہ و طالبات کو آگاہی دینی چاہئے۔ آگاہی کا نہ ہونا ہمیں بعض اوقات موت کے منہ میں لے جاتا ہے۔ جس طرح سڑک پہ سفر کرتے ہوئے ہمیں مرد کی زندگی کو محفوظ بنانا ہے، بالکل اْسی طرح ہمیں اپنی خاتون کی زندگی کو بھی محفوظ بنانا ہے۔ اِس پہلو کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے اْنہوں نے ڈاکٹر بشریٰ صدیق اور ڈاکٹر فیصل اقبال کی تجویز کردہ قرعہ اندازی پر پچیس سے زائد طلبہ و طالبات میں مفت سیفٹی ہیلمٹ اور گفٹ ہیمپرز تقسیم کئے۔ سیفٹی ہیلمٹ موٹر سائیکل چلاتے وقت گرنے یا ٹریفک حادثہ کی صورت میں شدید زخمی ہونے سے بچاتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر سَر کی چوٹ سے محفوظ بنانا ہے۔ تھوڑی، کان، ہونٹ، آنکھ اور سَر کا سامنے،پیچھے اور اوپر والے حصے بہت حد تک محفوظ رہتے ہیں۔ اگر ہماری مائیں یہ عادت اپنا لیں کہ جب اْ ن کا بیٹا یا بیٹی گھر سے باہر جارہا ہو تو جس محبت کے ساتھ اْنہوں نے اپنے بچوں کو موٹرسائیکل لاکر دی ہوتی ہے، اْسی محبت اور چاہت کے ساتھ اْنہیں ہیلمٹ دے کر گھر سے روانہ کریں۔ یقین کریں اگر ہمارے والدین اپنے بچوں کے ساتھ اِسی محبت کے پیمانے کو اپنا لیں توان کے بیٹے یا بیٹیاں صحیح سلامت اولاد واپس آئیں گی۔