بابر اعوان صاحب نے اسلام آباد کو باقاعدہ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا تو خوش گوار حیرت ہوئی کہ دیر سے ہی سہی ، کسی نے تو اسلام آ باد کے حقیقی مسئلے کو موضوع بنایا ۔ اسلام آباد میں بظاہر تو بڑا حسن انتظام نظر آتا ہے کہ اقتدار کا مرکز یہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے رہائشی پاکستان کے تمام شہروں سے زیادہ بے بس ہیں ۔ یہاں کے عوام حشرات الارض کی طرح یہاں کی افسر شاہی کے رحم و کرم پر ہیں۔ ان کی اپنی نہ کوئی آواز ہے نہ کوئی فورم ہے۔ نہ ان کا کوئی ضلعی حکومت ہے نہ کوئی ان کا کوئی اپنا میئر یا چیئر مین ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ معمولی سا کام ہو تویہاں کے عوام سینکٹروں کے بیچ پھیلے افسر شاہی کے دفاتر کے چکر لگا لگا کر رسوا ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی اس دفتر ، کبھی اس دفتر۔ ضابطے کی لایعنی پیچیدگیوں نے لوگوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے ۔ اور لوگوں کے پاس اپنے مسائل کے حل کے لیے سرے سے کوئی فورم ہی موجود نہیں۔ اسلام آباد ایک عدد چیف کمشنر صاحب کے حوالے ہے۔ ساری رعایا ان کے رحم و کرم پر ہے۔کوئی ناظم،کوئی چیئر مین یا کوئی میئر ہو لوگ جا کر مل ہی لیتے ہیں اور درجن بھر مسائل میں سے دو چار حل ہو ہی جاتے ہیں لیکن چیف کمشنر صاحب سے کون ملاقات کرے اور کیسے کرے؟ چیف کمشنر کا منصب عوام کے لیے ہے ہی نہیں۔یہ آقائوں کا بنایا ہوا منصب ہے جو رعایا کو دبا کر رکھنے کے لیے ہے۔ کبھی کبھار عید کے چاند کی طرح رعایا کو صاحب بہادر کا دیدار ہو جائے تو وہ عوام کی خوش قسمتی ہے ورنہ عوام کی یہ اوقات نہیں کہ وہ چیف کمشنر صاحب بہادر لاٹ صاحب سے ملاقات کی گستاخی کا تصور بھی کر سکیں۔ ایک عام آدمی کو تو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ چیف کمشنر ، جسے انہوں نے زندگی میں کبھی نہ دیکھا نہ نام سنا( ملاقات کی تو بات ہی رہنے دیجیے)،وزیر اعلی کے اختیارات لے کر اسلام آباد چلا رہا ہے۔ اسلام آباد انتظامیہ کی آفیشل ویب سائٹ جہاں ہمیں یہ بتاتی ہے کہ چیف کمشنر کے اختیارات کا دائرہ کتنا وسیع ہے وہیں یہ رہنمائی بھی کرتی ہے کہ چیف کمشنر صاحب یہ اختیارات بطور نمائندہ صوبائی حکومت استعمال کرتے ہیں۔ ایک غیر منتخب شخص،جسے اسلام آباد کی رعایا میں سے کوئی جانتا ہی نہیں،جس سے کوئی شریف آدمی ملاقات نہیں کر سکتا،جو یہاں کے مسائل کو نہیں سمجھتا،جس کے پاس عوام کا کوئی مینڈیٹ نہیں،جسے کسی نے ووٹ نہیں دیے،جو الیکشن لڑے تو شاید ایک کونسلر کی نشست بھی نہ جیت سکے ، اسے یہاں ایک صوبے کے وزیر اعلی کے اختیارات دے کربٹھا دیا گیا ہے۔ چیف کمشنر کی شکل میں صوبائی حاکم کا یہ بندوبست نو آبادیاتی دور میں،1897 میں،جنرل کلاز ایکٹ کے ذریعے متعارف کرایا گیا،تاہم آج تک اس بندوبست سے نجات حاصل نہیں کیا جا سکا۔دور غلامی کی یہ یادگار آج بھی موجود ہے اور اس شہر میں موجود ہے جو اس ملک کا دارالحکومت ہے۔ ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اسلام آباد کے چیف کمشنر کو وزیر اعلیٰ جیسے اختیارات نہ آئین نے دیے ہیں نہ کسی پارلیمان نے۔ یہ مارشل لاء دور میں 1980ء کے ایک صدارتی انتظامی حکم نامے کے تحت دیے گئے تھے۔یعنی دور غلامی کے اس بندوبست پر آج تک تمام حکمرانوں کا اتفاق رہا ہے کہ اسلام آباد کو اسی کے تحت چلانا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ، مارشل لاء ختم ہو گیا، جمہوریت تشریف لے آئی۔ آئین میں 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں تک کو با اختیار فرما دیا گیا لیکن کسی جمہوری حکومت کو یہ سوچنے کی توفیق نہ ہوئی کہ اسلام آباد میں ایک سرکاری افسر کو وزیر اعلیٰ کے اختیارات کیسے دیے جا سکتے ہیں؟ وزیر اعلیٰ تو پھر ووٹ لے کر آتا ہے اور ایک کابینہ کی مشاورت سے معاملات چلاتا ہے،اس کے خلاف عدم اعتماد بھی ہو سکتا ہے،اسمبلی میں اس پر تنقید بھی ہو سکتی ہے، لیکن چیف کمشنر کے انتخاب کا کوئی ضابطہ ہے نہ احتساب کا۔وہ عوام سے دور اور محاسبے سے مبرا ایک چھوٹا سا بادشاہ سلامت ہے۔کسی کو معلوم ہی نہیں اس لاوارث شہر کا ’وزیر اعلیٰ‘ کون ہے اور مسائل کے حل کے لیے کس کی بارگاہ میں التجا پیش کرنی ہے۔یہ کیسی جمہوریت ہے کہ دس لاکھ کی آبادی اور ایک سو سے زیادہ یونین کونسلوں والے اس شہر کو اس کی مقامی حکومت سے محروم رکھا گیا ہے اور یہاں چیف کمشنر کا راج ہے، جیسے محکوم رعایا پر کوئی نو آبادیاتی وائسرائے حکومت کر رہا ہو۔ ملک میں عام انتخابات پر تو لمبی چوڑی بحثیں ہو رہی ہوتی ہیں کہ آئین کے مطابق اتنے دنوں میں انتخابات ہونے چاہییں اور اس مدت سے تجاوز ہوا تو یہ غیر آئینی ہے ، لیکن اس پر کوئی بات نہیں کرتا کہ مقامی حکومتیں بھی تو آئین کے تحت ضروری ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جمہوری حکومتیں، بلدیاتی انتخابات سے گھبراتی کیوں ہیں؟ اگر وہ جمہوریت سے واقعی مخلص ہیں تو انہیں نچلی سطح پر عوام کو بااختیار کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ کیا وہ اسے اپنی اجارہ داری کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں؟ بلدیاتی حکومتوں سے چونکہ عوام طاقتور ہوتے ہیں اس لیے کوئی بھی ان حکومتوں کو پسند نہیں کرتا۔ تحریک انصاف کے دور اقتدار میں بھی یہی معاملہ تھا۔ عمران خان کے دور میں وفاقی حکومت نے کھڑے کھڑے اسلام آباد میئر کو معطل کر دیا تھا۔ بعد میں وہ ہائی کورٹ سے بحال ہوئے۔ یہی نہیں، تحریک انصاف کی حکومت نے پنجاب بھر کے بلدیاتی ادارے بھی گھر بھیج دیے تھے۔ وہ بھی بعد میں عدالت نے بحال کیے۔ اسی طرح ن لیگ کے دور میں منتخب لوگوں میں سے کسی کو میئر بنانے کی بجائے قانون میں گنجائش نکال کر ایک غیر منتخب شخص کو میئر بنا لیا گیا ۔ یعنی عملی طور پر عوامی نمائندگی کے تصور کو ٹھکرا تے ہوئے ایک کٹھ پتلی سی مقامی حکومت بنا کر قانونی تقاضا پورا کر لیا گیا۔ اس حکومت کی بے بسی کا عالم یہ تھا کہ اس کے پاس اسلام آباد کے لیے ایک روپے کا بجٹ بھی نہیں تھا۔ ترقیاتی بجٹ تو سی ڈی اے کے پاس تھا۔چنانچہ اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کرنے کی بجائے عارضی طور پر میئر اسلام آباد ہی کو سی ڈی اے کا چیئر مین بنا دیا گیا تھا تا کہ وہ ترقیاتی کام کروا سکیں۔ سی ڈی اے کو مقامی منتخب حکومت کے ماتحت نہیں کیا گیا، بلکہ وقتی طور پر معاملات چلانے کے لیے میئر کو سی ڈی اے کا عارضی سربراہ بنا دیا گیا۔ اسلام آباد کو اپنی مقامی حکومت کی ضرورت ہے۔ جو عوام کی نمائندہ ہو ۔ جس سے عوام ملاقات کر سکے۔ جس کی گردن میں نو آبادیاتی افسر شاہی والی روایتی اکڑ نہ ہو۔ اسلام آباد کے شہری اس ملک کے برابر کے شہری حصے ہیں وہ کسی نو آبادیاتی افسر شاہی کی رعایا نہیں ہیں۔جب چیف کمشنر یہاں وزیر اعلی کے اختیارات استعمال کر رہے ہیں تو کیوں نہ اسلام آباد کو باقاعدہ صوبہ بنا لیا جائے؟