مسئلہ فلسطین ایک بار پھر دنیا پر اسطرح سے اجاگر ہواکہ اس مسئلے کے حل سے چشم پوشی ہرگز نہیں کی جاسکتی ۔ حماس کے طوفان الاقصیٰ آپریشن پرمسلمان ممالک کے بعض حکمران نالاں وناراض ہیں۔ان کاکہناہے کہ 7اکتوبر2023کے بعدفلسطینیوں پر جوگزر رہی ہے، غزہ پٹی کی ناکہ بندی ہوچکی ہے، آب و دانہ کے لئے اہل غزہ العتش العتش کررہے ہیں،بستیاں،سکول ،مساجد اور اسپتال قبرستان میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔ آسمان سے بموں کی بارش ہورہی ہے اور زمین پر ٹینکوں کے گولے داغے جارہے ہیں۔اہل غزہ گھروں میں محفوظ ہیں اورنہ باہر،ہرطرف موت نے انہیں گھیرلیاہے۔ شب وروز سینکڑوں بچے، خواتین ا ور مرد شہیدہورہے ہیں اب تک شہیدہونے والوں کی تعداد 7ہزارمتجاوزہے اورزخمیوں کاکوئی حساب نہیں ۔لیکن اس قیامت خیز مصیبت کوحماس نے از خود دعوت دی۔ حماس اسرائیل کے خلاف یہ جنگ نہ چھیڑتی توفلسطینیوں کے ساتھ کھیلی جانے والی یہ خون کی ہولی کے دلدوزاورجگر چیر دینے والے مناظر دیکھنے نہ پڑتے۔ درپیش اس قیامت خیزصورتحال سے فلسطینیوں کا خاتمہ ہو رہاہے فائدہ اوربھلااسرائیل کا ہو رہا ہے۔ آخرکس کے اکسانے پر حماس کی قیادت عقل کھو بیٹھی اوراس نے اسرائیل پر یلغار کر دی۔یہ نادان 1948کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ درپیش صورتحال کوآنکھیں کھول کر دیکھیں کہ غاصب اسرائیل کس طرح ان کی سرزمین کوہڑپ کرتارہا،انہیں اپنے آبائی وطن سے جبری طورسے نکالااورانہیں بے وطن اوربے خانماں کردیا۔بچے کھچے فلسطینیوں کو مغربی کنارے اورغزہ کی پٹی میں اس طرح ٹھونس دیا کہ انہیں صرف یہ انتظار باقی رہے کہ ہمیں ایک ایک کرکے یاپھر اجتماعی موت ماراجائے گا۔ 2004 میںیاسر عرفات کی وفات کے بعد ساری دنیا مسئلہ فلسطین بھول چکی تھی۔ دنیا یہ بھول چکی تھی کہ 1948 میں فلسطین کی سرزمین سے لاکھوں فلسطینیوں کو بھگا کر وہاں پر دنیا بھر میں بکھرے یہودیوں کے لیے ایک ملک اسرائیل بنا دیا گیا۔ اقوام متحدہ نے اس اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور بس پھر ساری دنیا اسرائیل کو تسلیم کر بیٹھی۔ مگر گاہے بگاہے فلسطینیوںں کی در بدری کی یاد دنیا کو فلسطین دلاتا رہتا تھا۔ مگر جیسا اوپر بیان کیا گیا، یاسر عرفات کے انتقال کے بعد یاد دہانی کا بھی سلسلہ ختم ہو گیا تھا۔ 1948سے آج تک کی اسرائیلی ، صیہونی سفاکانہ ، ظالمانہ ،جابرانہ اور جارحانہ کارروائیوں کی رتاریخ کاپس منظر اورٹھوس شواہد کو سامنے رکھیں تو پھر حماس کی طرف سے اسرائیل پرحملے پر حماس کو ذمہ دار ٹھرانے کے لئے سر کھرچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ یہ عقدہ حل ہوکرسامنے آجاتاہے کہ فلسطینی مجاہدین یااقصیٰ کے فائیٹنگ فورس حماس نے غاصب اسرائیل کے خلاف جو جہادی کارروائی کی وہ بہت سوچ سمجھ کر اور ایک عظیم پلان کے تحت کی۔ حماس بخوبی سمجھ رہی تھی کہ اس کے اوراسرائیل کی حربی طاقت کاکوئی موازنہ نہیں۔اسرائیل بڑے پیمانے پردرندگی کامظاہرہ کرے گاتھاجس سے فلسطینی اجتماعی موت کا شکارہونگے ۔ ایسے منظم پلان کے کثیر المقاصد میں سے سرفہرست یہ تھاکہ عرب ممالک یکے بعد دیگرے اسرائیل کے سامنے جھکتے چلے جارہے ہیںاورجب سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم تو تو باقی کیا رہ جائے گا۔اپنے واضح مقصدکوپانے میں حماس کامیاب ہوئی اورعرب اسرائیل رابطہ ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوگیااورجوانتہائی ضروری تھا ہے۔حماس کے اس آپریشن سے عرب عوام جوپہلے ہی فلسطینیوں کے غم کے زخم کوسہلارہی تھی ،ان کے اور عرب حکمرانوں کے درمیان ایک کشمکش کی بنیاد پڑی اوریہ کشمکش عربوں کو اسرائیل سے ازلی دشمنی پر کسی بھی قسم کانرم گوشہ پیدا نہیں ہونے دے گا ۔عرب ممالک نے انتہاکردی اور ایک ایک کرکے غاصب یہود اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیکنے شروع کر دیے۔ مصر تو 1970 کی دہائی میں ہی فلسطینیوں سے دامن چھڑا کر اسرائیل کو تسلیم کر چکا تھا۔ چند سال قبل دبئی اور عمان نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ سعودی عرب اور قطر جیسے دو چار ممالک حماس کی مدد کرکے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن حالات تیزی سے بدلے ۔ سعودی عرب کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معنی تو یہ تھے کہ تمام اسلامی ممالک اسرائیل کا دامن پکڑ لیتے۔ بس پھر فلسطین اور فلسطینیوں کا اللہ اللہ خیر صلّا۔ چنانچہ حماس نے امریکی سازش کے تارعنکبوت کو پھاڑ ڈالا۔ غزہ پٹی کے فلسطینی تو اسرائیل کے ہاتھوں جان گنوا رہے ہیں، لیکن وہ اپنے خون سے امہ مسلم ہے لئے عنوان نجات لکھ رہے ہیں۔ دوسرایہ کہ حماس نے پوری دنیاتک یہ پیغام پہنچایاکہالاقصیٰ اور سرزمین انبیاء فلسطین پریاسر عرفات مرحوم کی طرح کسی سودا بازی کرنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کس تحریک میںکتناپوٹنیشل ہوتاہے بلاشبہ 7اکتوبر 2023کو آپریشن طوفان الاقصیٰ کے دفاعی حملوں نے ثابت کیاہے کہ حماس میں لڑنے اورمارنے کا پوٹینشیل بدرجہ اتم موجود ہے ۔ حماس نے تحریک آزادی فلسطین کو ایک نیا سیاق و سباق سامنے لایا۔ یہ درحقیقت حماس کی طرف سے مسلم امہ کو ان مجاہدین تنظیموں جو اپنی سرزمین پر قابض اورغاصب قوتوں سے نبردآزماہیں کاساتھ دینے اوران پراعتبار واعتماد رکھنے کا پیغام دیاگیا۔ واضح رہے کہ مسلم امہ الگ شے ہے اورمسلمان ممالک پرحکمران طبقہ ایک اور شے ہے ۔ جہاں تک مسلم امہ کا معاملہ ہے تو وہ حماس کے ساتھ کھڑی ہے ۔مسلم دنیاکے مابین سرحدوں کے نام سے مصنوعی لکیریں ہٹادیں دی جائیں تو اسرائیل کا خاتمہ چند ہفتوں میں ہوسکتاہے ۔لیکن اصل معاملہ مسلم امہ پر مسلط حکمران طبقے کا ہے اگر مسلم امہ کا حکمران طبقہ حماس کا ساتھ دیتاہے تو کسی کی جرأت نہیں ہوگی کہ وہ مشرق وسطیٰ کے جغرافیائی حدودکو تباہ کرے۔مسلم امہ کے حکمران طبقے کا حماس کے ساتھ کھڑنے ہونے سے مسلم دنیا کی سیاست پر نمایاں طورپر نہایت ہی مثبت اثر پڑھ سکتا ہے اوریہ مسلم امہ کی سیاست میں ایک خاص پیش رفت ثابت ہو گی۔ لیکن اگر مسلم امہ کا حکمران طبقہ مسلسل منافقت اوربزدلی کامظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل اورحماس کوترازوکے ایک ہی پلڑے میں تول کردونوں کومجرم ٹھراتے ہوئے،حماس کی مخالفت کرتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادیوںکو بھی خوش رکھنا چاہتے ہیں اور اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے مسلم امہ کوبھی خوش رکھناچاہتے ہیں تو پھر اس روش سے حماس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتاہے ۔حماس کوتنہاسمجھ کر امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل سے مل کر اپنے بدصورت چہرے کے ساتھ حماس کو بہت زیادہ نقصان پہنچائے گا لیکن یاد رکھیں کہ وہ خطے میں حماس کے نظریہ جہاد کو نہیں مار سکتے۔