سب حیران ہیں کہ ہزاروں فلسطینی مسلمان بے مثال ظلم تشدد وحشت اور بربریت کا شکار ہیں مگر کسی مسلمان ملک اور حکومت میں جرات نہیں کہ کھل کر امریکہ سے کہہ سکے کہ تم غلط کر رہے ہو یا اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہی توڑ ڈالے۔ ایک ہندو پولیٹیکل سائنسٹ ہے۔ دلیپ ہیرو نے بہت خوبصورت کتاب لکھی ہے، اس سرد جنگ پر جو اسلامی امہ کے درمیان لڑی جا رہی ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ سرد جنگ اب سرد نہیں رہی۔ اس کے دامن میں چنگاریاں سلگ رہی ہیں دلیپ ہیرو نے تو بات تھی کہ ریاض اور تہران کے درمیان سرد جنگ کی۔ اس کا نتیجہ تھا کہ آہستہ آہستہ سب اسلامی ملک دھیرے دھیرے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کر رہے تھے۔ کسی کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کے ریاض سے تعلقات کو جنم جنم کا ساتھ کہنا پڑتا ہے، اسی طرح پاکستان ہمیشہ سے امریکہ کا اتحادی ملک ہے لیاقت علی خان سے ایوب خان تک اور جنرل ضیاء سے جنرل مشرف تک۔ کہنے کو ہماری چین سے دوستی پہاڑوں سے اونچی اور سمندروں سے گہری ہے ہمارے ہی خطے میں ایران۔ امریکہ سے دور اور چین اور روس کے قریب ہے۔بھارت ہوشیار کھلاڑی ہے وہ امریکہ اسرائیل اور ایران سبھی کا دوست مگر کسی کا بھی نہیں۔ جب سعودی عرب ‘مصر‘ ترکی‘ قطر اور یو اے ای کے بعد اسرائیل سے قربتیں بڑھا رہا تھا ایران‘ فلسطین اور مسلمان ملکوں کے عوام شدید حیرت سے یہ سب دیکھ رہے تھے تو پردے کے پیچھے پاکستان میں اقتدار کی غلام گردشتوں میں بھی سعودیہ اور امریکہ کے دبائو پر اسرائیل بارے سرگوشیاں اور مشورے ہو رہے تھے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہمارے ہاں طاقت کے ایک اہم کردار نے اپنی قریبی میڈیا پنڈت سے کہا کہ انشاء اللہ جلد ہی کشمیر پر کوئی فیصلہ ہو جائے گا۔ پنڈت کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی کچھ عرصہ گزرنے یہ لہر بے چینی اور مایوسی میں بدل گئی۔ فیصلہ ساز حلقوں کو یہ خیال آہستہ آہستہ سرائیت کرتا رہا اور ہمارے معاشی مسائل تبھی حل ہو سکتے ہیں جب ہم جیو اکنامکس کو فالو کریں۔ یہ جیو اکنامکس کا مطلب صرف سی پیک نہیں تھا نہ ہے۔اس کا مطلب بھارت اور اسرائیل سے تعلقات کی ڈینٹنگ پینٹنگ ہے پتہ نہیں ٹریجڈی ہے کامیڈی المیہ ہے کہ طربیہ مگر طاقت کے مندر کے پنڈت پہلے یہ بیانیہ بناتے رہے کہ اسرائیل یہود ہے اور بھارت ہنود ۔ان دونوں کے خلاف درسی کتب سے لے کر میڈیا تک اور جمعہ کے خطبوں سے لے کر سرکاری تقاریر تک ایک خاص لائن پر گزرتی نسل کو ایک خاص پیغام دیا جاتا رہا۔ عالمی حالات بدل گئے جب خادمین حرمین شریفین نے معاشی اشرات کی بنیاد پر اپنی خارجہ پالیسی کو ری ڈیزائن کرنا شروع کیا تو ہمارے پالیسی میکرز گھبرا گئے۔ایک طاقتور پالیسی پنڈت نے چوٹی کے میڈیا برین بلائے اور کشمیر معذوری ظاہر کرنا شروع کی۔ مگر جو بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے وہ یہ ہے کہ وہ باقاعدہ ایسے لکھنے اور بولنے والے تلاش کرتے رہے جو اسرائیل اور کشمیر پر پرانی لائن سے ہٹ کر بات کر سکیں۔ اگر حماس‘ اسرائیل پر اٹیک نہ کرتی تو مسلمان امہ ساری کی ساری تو نہیں مگر نوے فیصد اسرائیل کی جھولی میں جاگرتی۔ اسرائیل ‘ بھارت ‘ امریکہ‘ سعودیہ ‘ یو اے ای‘ترکی‘ مصر وغیرہ ہمارا پڑوسی ملک ایران اکیلا کھڑا رہتا مسلم امہ کی سیاست کا سرکل ایک طرف اور ایران حزب اللہ حماس اور فلسطین ایک طرف طاقت کا توازن ان کی طرف ہوتا جو امریکی کیمپ میں ہوتے۔ پاکستان کو بذریعہ آئی ایم ایف‘ عالمی بنک اور مسلمان امیر ممالک کے ذریعے آہستہ آہستہ ٹون اپ کیا جاتا دھیرے دھیرے بازو مروڑی جاتی۔ بازو ٹوٹنے لگتی تو ہم بھی بھاری اور طاقتور کیمپ کا حصہ بن جاتے ہمارے معاشی حالات بہتر ہونے لگتے اور ہمارا بیانیہ کشمیر اور اسرائیل پر یوٹرن لے لیتا۔ ایران‘ روس اور چین کے ہمراہ یہ سب دیکھ رہا تھا۔ چین پاکستان کی فوری معاشی ضروریات ہر وقت پوری نہیں کر سکتا ہماری اشرافیہ امریکہ کی عادی ہے کئی رخوں سے کئی جہتوں سے۔ دبائو کیا تھا ۔ کیا ہے۔ کشمیر کو بھول جائو اسرائیل کو یاد رکھو مگر حکمران نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں نہ آگے بڑھ سکتے ہیں فارسی میں ایکسپریشن ہے۔ نہ جائے رفتن۔ نہ پائے ماندن۔ میاں نواز شریف لندن سے بار بار یو اے ای اور سعودیہ کیوں جاتے رہے؟ ہماری مقتدرہ کو اس وقت پاکستان کو معاشی گراوٹ سے بچنا ہے عمران نے جو کیا سو کیا۔ عمران کی نسبت میاں نواز شریف کے خوشحال عرب ممالک سے اچھے تعلقات ہیں۔ اگر میاں نواز شریف پاکستان کی حکمران ہوں تو ہم سعودیہ اور امریکہ سے باہم یگانگت کے رشتے میں اور بھی پروئے جا سکتے ہیں ۔ اگر ہم ایک خاص پوزیشن لیں عالمی محاذ پر۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سمیت سب مسلمان ملک کبھی اسرائیلی جارحیت کی ویسے مذمت نہیں کر سکتے اور کریں گے جیسی مسلمان بھائی کرتے ہیں یہ سنی سٹیٹ اور شیعہ سٹیٹ کی بات نہیں ۔فلسطینی تو شیعہ نہیں ایران شیعہ ہے بات امہ کی آپسی کولڈ وار کی ہے بات کچھ کمزور مسلمان ملکوں کی جیو اکنامکس کی ہے۔بات امریکہ کے سپر پاور ہونے کی ہے بات ہمارے پڑوسی بھارت اور امریکہ اور اسرائیل کی ہے بات ایران حزب اللہ ‘ حماس بمقابلہ دیگر امت کی ہے انتہائی دائیں طرف سعودی عرب ہے۔ انتہائی بائیں جانب ایران۔ دائیں جانب ہی امریکہ۔ اسرائیل مصر اور ترکی اور ہم نوا ہیں ۔ ہم کہاں ہیں؟ کبھی سی پیک کبھی واشنگٹن‘ پھر بھارت اور جیو اکنامکس کی رو سے اسرائیل بھی۔ مگر کاتب تقدیر نے کچھ اور ہی لکھ رکھا ہے ساری دنیا اپنے مستقبل کی جانب بڑھ رہی ہے۔ وہ مستقبل جس کی طرف احادیث میں واضح اشارات موجود ہیں۔ مگر ہم سب اور ہمارا میڈیا جس کو کور کر رہا ہے۔ اس کا امتحان شروع ہو گیا ہے۔