میں نے مسٹر داراب کو اطلاع دی کہ میں پشتو بولنے پر قادر ہو گئی ہوں ۔ مسٹر داراب کے چہرے سے سوچ بچار کا اظہار ہوا ۔ پھر وہ بولے ۔ ’’ جن افراد کو تمھارے ساتھ جانے کے لیے منتخب کیا گیا تھا ، ان میں سے ایک ابھی پشتو بولنے میں کچا ہے۔ اس پر ایک ہفتے اور محنت کی جائے گی ۔‘‘ ’’ توروانگی میں مزید ایک ہفتہ لگے گا ؟ ‘‘ مجھے مایوسی ہوئی تھی ۔ ’’بگ پرسن سے میری بات ہوئی تھی ۔ انھیںبتا دیا تھا میں نے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب مزید تاخیر نہیں کی جاسکتی ۔‘‘ ’’تو اب دوہی جائیں گے میرے ساتھ !‘‘ ’’نہیں جائیں گے تو تین !…‘‘مسٹر داراب نے کہا ۔’’ بگ پرسن سے معلوم ہوگا کہ اب کسے منتخب کیا جائے ۔‘‘ ’’اسے بھی تو پشتو سیکھنے میں کچھ دن لگیں گے ! ‘‘ ’’نہیں لگیں گے ۔ بگ پرسن نے یہی کہا تھا ۔ شاید کیپٹن سونیا کا انتخاب کیا جائے ۔‘‘ ’’سونیا؟‘‘ میں چونکی ۔ ’’ہاں ، کیوں !‘‘ ’’میں نے کسی سے اس لڑکی کا نام سنا تھا ‘‘ ۔ ’’ اس نام کی کئی لڑکیاں ہوسکتی ہیں ‘‘ ۔ میں نے مسٹر داراب سے اتفاق کیا لیکن مجھے وہ سونیا یاد آگئی تھی جس کا نام میں نے بانو سے سنا تھا ۔ جن تین نوجوانوں نے مجھے ہائی وے سے اٹھا کر بانو تک پہنچایا تھا ، ان میں سے دو تو مارے گئے تھے ۔ تیسرے کا نام چوہان تھا جسے بانو نے ہدایت کی تھی کہ وہ سونیا کے گھر چلا جائے ۔ مسٹر داراب پھر بولے ۔ ’’آج ہی کسی وقت مجھے بگ پرسن سے معلوم ہوگا۔ ‘‘ ’’بہتر۔‘‘ میں کھڑی ہوگئی ۔ ’’ میں اپنے کمرے میں بے چینی سے منتظر رہوں گی ۔‘‘ میں اپنے کمرے میں آگئی ۔ میرے دماغ میں سونیا کا نام گونجتا رہا ۔ میں سوچ رہی تھی ، کیا یہ وہی سونیا ہوگی جس کا نام میں نے بانو سے سنا تھا ؟ میرے دماغ میں ایک بار پھر یہ خیال سرسرانے لگا ، کیا بانو ہی بگ پرسن ہیں ؟ لنچ کے بعد مسٹرداراب نے مجھے طلب کیا ۔ ’’میرا خیال ٹھیک ہی نکلا ۔‘‘ انھوں نے مجھے سے کہا ۔ ’’ انھوں نے کیپٹن سونیا کا انتخاب کیا ہے ۔ مجھے ہدایت کی تھی کہ میں اس کی چھٹیاں منسوخ کردوں اور فون پر اس سے بات کرکے بتادوں کہ اب اسے کس مشن پر جانا ہے چنانچہ میں اس سے بات کر چکا ہوں ۔ وہ کل صبح آجائے گی دفتر !…کل ہی تم لوگ روانہ ہوسکتے ہو ۔‘‘ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ زیادہ تاخیر نہیں ہوگی ۔ دفتر کا وقت ختم ہونے کے بعد میں سیدھی بانو کے گھر کی طرف روانہ ہوگئی ۔ سونیا کا نام اس وقت بھی میرے ذہن میں چکرا رہا تھا ۔ بانو کے گھر پہنچ کر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔ مجھے فون کر کے آنا چاہئے تھا ۔ بانو اس وقت گھر پر نہیں تھیں ۔ اب میں نے انھیںفون کیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ سات بجے تک گھر پہنچ جائیں گی ۔ سات بجنے میں دیر تھی اس لیے میں اپنے گھر لوٹ گئی لیکن ساڑھے چھ بجے پھر نکل پڑی ۔ سات ہی بجے تھے جب میں ان کے گھر پہنچی ۔ بانو موجود تھیں ۔ میں نے انھیںوہ باتیں بتائیں جو مسٹر داراب سے ہوچکی تھیں ۔ سونیا کا نام لیتے ہوئے میں ان کا چہرہ بہ غور دیکھتی رہی تھی ۔ نام سن کر ان کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ابھرا ۔ ’’بانو!‘‘ آخر میں نے ہی کہا ۔’’ یہ وہ سونیا تو نہیں ہوگی جس کا نام میں آپ سے سن چکی ہوں ۔ چوہان کو آپ نے اس کے گھر جانے کی ہدایت کی تھی ؟‘‘ ’’یہ خیال تمھیں کیوں آیا؟‘‘ ’’خیال تو دوسرا ہی آیا ہے ، اوردوسری بار آیا ہے ۔‘‘ ’’وہ کیا؟‘‘ ’’ایس آئی ایس کی بگ پرسن کہیں آپ ہی تو نہیں!‘‘ بانو ہنس پڑیں ۔ ’’خوب خیال آیا ہے تمھیں !…کیا تمھیں یاد نہیں ؟ جب بگ پرسن نے جھنگ میں کمانڈو ایکشن کی ہدایات دی تھیں … تمھارے مسٹر داراب کو ، اس وقت میں تمھارے ساتھ ہوائی جہاز میں نہیں تھی؟‘‘ ’’او ہاں! اس طرف میرا دھیان ہی نہیں گیا، لیکن کیا کروں ! …آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ آپ کہاں مصروف رہتی ہیں ۔ اتنا طویل عرصہ آپ کے ساتھ گزار لینے کے باوجود آج بھی آپ میرے لیے پراسرار ہی ہیں ۔ خیر ! بھول جائیے میری اس حماقت انگیز بات کو ! شاردا کے بارے میں بتائیے !‘‘ ’’ٹریننگ پر گئی ہوئی ہے ۔ صبح سے رات تک ٹریننگ کررہی ہے ۔ جنون سا طاری ہے اس پر !…ایسا لگتاہے جیسے ایک دن میں تربیت مکمل کرلینا چاہتی ہو ۔‘‘ ’’یہ بھی میرے لیے عجیب بات ہے کہ آپ کے وسائل کسی کو اس قسم کی ٹریننگ بھی دلواسکتے ہیں ۔ چوہان اور اس کے دونوں ساتھی بھی …‘‘میں نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ کر سوال کر ڈالا ۔’’ آخر کتنے لوگ ہیں آپ کے تابع ؟ اور کیوں ہیں ؟ ‘‘ ’’ تم نے ایک بار ایک جملہ کہا تھا ۔ تم پاکستان کے سارے تاریک دریچے بند کرنے کے لیے اپنی جان پر بھی کھیل سکتی ہو۔ کچھ اسی قسم کی بات کہی تھی تم نے ۔ دراصل میں بھی اسی کی خواہش مند ہوں ۔ بہت دن ہوگئے جب میں نے یہ فیصلہ کیا تھا ۔ اسی عرصے میں ساری تیاریاں کی ہیں میں نے ! ‘‘ ’’گروہ بنا ڈالا ہے ایک ؟‘‘ ’’کچھ ایسا ہی سمجھو! ‘‘ ’’خیر چھوڑ یں ۔ کل میری روانگی ہے ۔ میں چاہتی ہوں کہ جانے سے پہلے شاردا سے مل لوں ۔ وہ کچھ نارمل ہوئی یا نہیں ؟ ‘‘ ’’دیکھ لینا خود! نوبجے تک آجائے گی ۔‘‘ شاردا نو بجے ہی آئی اور اس سے مل کر مجھے محسوس ہواکہ وہ نارمل نہیں ہوئی تھی ۔ ماں باپ کے مرجانے کا صدمہ اس کی آنکھوں سے جھانک رہا تھا ۔ چپ سی اب بھی لگی ہوئی تھی اسے ! … اس نے بہت کم بات کی ! ہم تینوں نے ساتھ ہی کھانا کھایا تھا ۔ دس بجے میں وہاں سے اپنے گھر روانہ ہوئی ۔ دوسری صبح میں دفتر پہنچی تو مسٹر داراب کمرے میں کیپٹن زاہد اور کیپٹن اشرف کے علاوہ ایک لڑکی بھی تھی ۔ میں سمجھ گئی کہ وہ سونیا ہوگی ۔ مسٹر داراب نے اس سے میرا تعارف کرایا۔ ’’چارمنگ۔‘‘ سونیا نے مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے آنکھ بھی ماری اور اپنا نچلا ہونٹ بھی کاٹا ۔ ایسی ہی حرکت لڑکیوں کو دیکھ کر آوارہ لڑکے کرتے ہیں ۔ میں مسکرا کر رہ گئی ۔ مسٹر داراب مجھ سے بولے ۔ ’’روانگی کے لیے تمھارے پاس صرف ایک گھنٹا ہے ۔ طیارے میں تمھیں پشاور جانا ہے اور پھر جیپ میں سفر کرنا ہے ۔ تم سب کا انداز ہپی سیاحوں جیسا ہوگا ۔ وزیر ستان پہنچ کر تم لوگ جو روپ بھی دھارنا چاہو ، اس کا انحصار گروپ لیڈر کی حیثیت سے تم ہی پر ہے ۔ تم لوگوں کے لیے ہپیوں کا سا لباس برابر کمرے میں ہے ۔ ایک گھنٹا گزرنے سے پہلے علی محمد بھی آجائے گا ۔‘‘ ’’علی محمد ؟‘‘ میں چونکی ۔ ’’ہاں‘‘ ۔ مسٹر داراب نے کہا ۔ ’’ اس نے تمھیں اس وادی کا نقشہ تو بنا کر دے دیا ہے لیکن بگ پرسن کا خیال ہے کہ پہاڑی علاقے کے نقشے بعض اوقات بھٹکا بھی دیتے ہیں ۔ علی محمد تمھارا رہ بر ہوگا ۔‘‘ ’’گویا مکمل اعتماد کرلیا گیا ہے اس پر ؟ ‘‘ مسٹرداراب نے سر اثبات میں ہلانے پر اکتفا کی ۔ وزیرستان پہنچنے تک کیا کیا گل کھلے ؟ آئندہ اقساط میں پڑھیے !