میری بات نے سبھی ساتھیوں کو چونکا دیا ۔ ’’ختم ہوگئے ؟ ‘‘ سونیا کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا ۔ ’’کیسے ختم ہوگئے؟‘‘ یہ زاہد تھا ۔ ’’ دیکھتے ہیں چل کر ! ‘‘ میں نے ٹیلے کی آڑ سے نکلتے ہوئے کہا ۔ ’’ختم ہوگئے ؟ یعنی مرگئے؟‘‘ اشرف بولا ۔ ’’ہوں ۔‘‘ میں نے تیزی سے اس طرف بڑھنا شروع کیا جہاں لاشیں پڑی ہوی تھیں اور دونوں گھوڑے ان لاشوں کو سونگھ رہے تھے ۔ قریب پہنچنے پر سبھی کو معلوم ہوگیا کہ ایک کے سینے میں اور دو سرے کی گردن میں تیر پیوست تھے ۔ ’’اس ویرانے میں تیر انداز ؟ ‘‘ سونیا بولی ۔ لہجے میں حیرت تھی ۔ ’’یہاں ہمارا ہم درد کون ہو سکتا ہے …!‘‘اشرف بھی خاموش نہیں رہا تھا ۔ میں نے ان دونوں ہی کی کسی بات کا جواب نہیں دیا ۔ میرے دماغ میں دو نام چکرا رہے تھے ۔ بگ پرسن اور بانو !…جھنگ میں بھی وہ دونوں تھے اور میری نظر میں آئے بغیر انھوں نے میری مدد کی تھی ۔ ایسا ہی یہاں بھی ممکن تھا ، اور اگر نہیں تو کوئی تیسری ہستی ایک سوالیہ نشان ہوتی ۔ ’’ہمیں ان کا اسلحہ تو لے ہی لینا چاہیے !‘‘ زاہد کی تجویز تھی ۔ ’’ہمارے پاس پہلے ہی کچھ کم سامان نہیں ہے ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’مزید بوجھ بڑھانا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ان گھوڑوں کو کام میں لایا جائے ۔‘‘ میں نے ایک گھوڑے کی گردن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔ ’’ یہ تو بہت سیدھا معلوم ہوتا ہے ۔‘‘ میں نے آگے بڑھ کر دوسرے گھوڑے کی گردن پر ہاتھ پھیرا ۔ اس وقت علی محمدبول پڑا ۔ ’’ان کی ٹاپوں کی آواز دشمن کو ہماری طرف متوجہ کردے گی ۔‘‘ ’’نہیں کرے گی ۔ ان کی ٹاپوں پر کپڑا باندھا جاسکتا ہے۔ ‘‘ ’’اور کپڑا ان کے لباسوں کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔‘‘ سونیا نے لقمہ دیا ۔ اسی وقت ایک آواز نے ہمیں چونکا دیا ۔ وہ آواز کسی گاڑی کی تھی ۔ وہ کوئی جیپ بھی ہوسکتی تھی اور لینڈ کروزر بھی …! ’’ہمیں یہاں سے پھر بھاگنا ہوگا ، فوراً۔ ‘‘ میں نے تیزی سے کہا ۔ ’’ اس مرتبہ ہماری تلاش میں ایک گاڑی بھی روانہ کی گئی ہے ۔‘‘ ابھی ہم لوگوں کی سانسیں پوری طرح بہ حال نہیں ہوئی تھیں لیکن ہمیں وہاں سے پھر بھاگنا پڑا ۔ اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ گھوڑوں کے سموں پر کپڑا باندھا جاسکتا ۔ ہم نے پھر اسی سمیت میں دوڑنا شروع کردیا جس طرف پہلے بھاگتے رہے تھے ۔ ’’مناسب ہوگا کہ ہم سب کسی ایک جگہ نہ چھپیں ۔‘‘ میں نے دوڑتے میں کہا ۔ ’’ہمیں تین حصوں میں تقسیم ہو کر مختلف ٹیلوں کی آڑ لینا چاہیے ۔ اگر مقابلے کی نوبت آگئی تو ان پر تین طرف سے حملہ کیا جاسکتا ہے ۔ گاڑی میں زیادہ آدمی ہوسکتے ہیں ۔ اس سے پہلے کہ وہ قریب آجائیں اور ہمیں دیکھ لیں ، ہمیں تقسیم ہو کر چھپ جانا چاہیے ۔ مسلسل بھاگتے رہنے سے تو ہم ان کی نظر میں آجائیں گے ۔‘‘ ـ میری اس تجویز پر فوری عمل کیا گیا کیوں کہ گاڑی کے انجن کا شور اب خاصا قریب ہوچکا تھا ۔ تقسیم اس طرح عمل میں آئی کہ علی محمد کو میں نے اپنے ساتھ رکھا ۔ زاہد اور سونیا نے کچھ فاصلے کے دوسرے ٹیلے کی آڑ لی ۔ اشرف اس سے کچھ فاصلے کے ٹیلے کی آڑ میں چھپا ۔ ہوا کے ایک تیز جھونکے نے ایک اور گاڑی کے انجن کی آواز بھی میرے کانوں تک پہنچائی ۔ جھونکا ختم ہونے کے بعد آواز معدوم ہوگئی ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ابھی دور تھی ۔ پہلی گاڑی قریب آتی جارہی تھی ۔ انھوں نے اپنے دو آدمیوں کی لاشیں اور گھوڑے یقینا دیکھ لیے ہوں گے ۔ ’’لیڈر!‘‘ علی محمد دھیمی آواز میں بولا ۔ ’’اگر مقابلے کی نوبت نہ آئی تو ہم پندرہ منٹ میں پہاڑوں تک پہنچ سکتے ہیں ۔ وہاں چھپنا بہت آسان ہوگا۔‘‘ ’’تم نے بتایا تھا کہ ان پہاڑوں میں تین سرنگیں ہیں ۔ ان میں سے ایک سرنگ سے گزر کر آبادی کے علاقے میں پہنچ جائیں گے۔ ‘‘ ’’جی ہاں‘‘ ’’ اور آبادی کے بعد پھر پہاڑ ہیں جنھیں عبور کرکے ہم اس جگہ تک پہنچ سکیں گے جہاں مرکز ہے ۔‘‘ ’’جی ہاں۔‘‘ ’’ان پہاڑوں میں کوئی سرنگ نہیں ہے ؟ ‘‘ میں نے سامنے کے پہاڑوں کی طرف اشارہ کیا۔ ’’جی نہیں ۔‘‘ ’’کوہ پیمائی کا سارا سامان تو ہم ساتھ نہیں لاسکتے تھے لیکن ویکیوم ، ہینڈ گلوز اور رسے ہیں ہمارے پاس۔ ‘‘ میں یہ باتیں کر کے نفسیاتی طور پر خود کو باور کرانا چاہتی تھی کہ ہم اپنے مقصد میں یقینا کام یابی حاصل کریں گے ۔ دوسرے سامان کے ساتھ ہمارے پاس سیٹلائٹ فون بھی تھے اور یہ طے پاچکا تھا کہ اگر کسی وقت ایک دوسرے سے بچھڑ جائیں تو ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرنے کے لیے میسیج کا سہارالیں ۔ کال کرنے کی صورت میں گھنٹی کی آواز ہمارے دشمن یا دشمنوں میں سے کوئی ایک بھی سن لیتا تو ہمارے لیے خطرات بڑھ جاتے ۔ جیپ اب ہمیں نظر آنے لگی تھی جس پر سات آٹھ افراد تھے ۔ ’’ اب بالکل خاموش ۔‘‘ میں نے علی محمد کو سرگوشی کرتے ہوئے تاکید کی ۔ علی محمد نے سر ہلانے پر اکتفا کی تھی ۔ جیپ جیسے جیسے قریب آتی جارہی تھی ، میں اور علی محمد ٹیلے کے پیچھے اپنی پوزیشن بدلتے رہے تھے ۔ ہمیں ہر صورت میں ان کی نظروں میں آنے سے بچنا تھا ۔ میں دیکھ چکی تھی کہ جیپ میں موجود دو آدمیوں نے اپنی آنکھوں سے دوربینیں لگا رکھی تھیں ۔ جلد ہی وہ جیپ ہمارے ٹیلے کے قریب سے گزر گئی ۔ اس وقت میں نے جھانک کر دیکھنے کی حماقت نہیں کی تھی ۔ صرف انجن کی آواز سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ سونیا اور اشرف کے ٹیلوں سے بھی آگے نکل گئی تھی ۔ میں نے سونیا اور اشرف کو یکے بعد دیگرے میسج کیے کہ ابھی وہ آڑ سے نہ نکلیں ۔ ہوسکتا ہے جیپ کسی اور راستے کا رخ کرنے کی بہ جائے واپس لوٹے ۔‘‘ میر اخیال ٹھیک نکلا ۔ کچھ ہی آگے جا کر جیپ واپس ہوئی تھی ۔ یہ اندازہ میں نے اس کے انجن کی آواز سے لگایا تھا ۔ وہ دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔ اسی وقت مجھے اشرف کا میسج ملا ۔ ’’ شاید ان لوگوں کو کچھ شبہ ہوگیا ہے ۔ میرے پیر سے ایک پتھر لڑھک گیا تھا۔‘‘ اسی وقت وہ ویرانہ فائرنگ کی آواز سے گونج اٹھا ۔ بہ یک وقت کئی گنوں کے استعمال کا مطلب یہ تھا کہ وہ دشمنوں نے چلائی تھیں ۔ میر اجسم سنسنا گیا ۔ ذہن میں خیال آیا تھا کہ اشرف ہی کو ٹارگٹ کیا گیا ہے! اس فائرنگ کا نتیجہ کیانکلا ؟ کل کے اخبار میں پڑھیے!