سبھی میری طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ میں نے سونیا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’کام تو تم نے اچھا دکھایا لیکن بہتر تھا کہ تم یہ کہہ کر اس سے کلاشنکوف مانگتیں کہ تم خود ہم سب کو ختم کروگی۔ ضروری نہیں کہ وہ تمھاری بات مان لیتا لیکن ذرا پیار سے کہتیں تو مان بھی سکتا تھا۔ ‘‘ ’’تم نے کسی خطرے کی بات کی ہے لیڈر! ‘‘سونیا نے کہا۔ باقی ساتھی بھی سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ ’’ہاں۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’گولیاں چلنے کی آواز دور تک گئی ہوگی۔ دوسرے طالبان چوکنا ہوگئے ہوں گے۔ ان میں سے کوئی ا س طرف بھی آسکتا ہے۔ یہ لاش بھی انھیں مل جائے گی۔ وہ سمجھ لیں گے کہ سرکاری لوگ یہاں پہنچے ہیں۔ وہ ہماری تلاش شروع کردیں گے۔ ہم ان کی نظر میں آگئے تو مارے جانے کا خطرہ ہے۔ بہتر تو یہی ہوتا کہ ہم ان کی بے خبری میں ان کے مرکز تک پہنچتے۔‘‘ ’’آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں لیڈر! ‘‘علی محمد نے میری تائید کی۔ ’’تو کیا اب ہمیں کہیں چھپنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟ ‘‘کیپٹن زاہد بولا۔ ’’یقینا یہ ضروری ہے۔ ابھی ان سے مقابلے کی نوبت نہ آجائے اور اب ہمیں اپنے ہتھیار سنبھال لینے چاہئیں۔ اگر سامنا ہوگیا تو ہمیں مقابلہ تو کرنا پڑے گا۔‘‘ ہم سب جب اپنے ہتھیار نکال رہے تھے تو علی محمد نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہمیں اس طرف ان پہاڑوں کی طرف بھاگنا چاہیے۔ چھپنے کی جگہ وہیں مل سکتی ہے۔ ہمیں جانا بھی اسی طرف ہے۔ میں ایک سرنگ سے واقف ہوں جس سے گزر کر ہم وزیرستان کی آبادی کے علاقے میں پہنچیں گے۔ پھر اس آبادی کے بعد بھی پہاڑہیں۔ وہ بھی کسی طرح عبور کرنے ہوں گے۔ اس کے بعد ہی ان لوگوں کے مرکز تک پہنچا جاسکتا ہے۔‘‘ علی محمد کی بات ختم ہوئی ہی تھی کہ ہوا کے ایک تیز جھونکے نے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز ہم تک پہنچائی۔ جھونکا ختم ہوا تو آواز آنی بھی بند ہوگئی۔ ’’جتنا تیز دوڑنا ممکن ہو، دوڑو۔‘‘میں نے کہا اور اسی سمت میں دوڑنا شروع کردیا جدھر علی محمد نے اشارہ کیا تھا۔ علی محمد نے دوڑتے ہوئے کہا۔ ’’یہ وزیری قبیلے کے طالبان ہوں گے۔ انھی کو بہت شوق ہوتا ہے گھڑ سواری کا۔‘‘ اس وقت ہوا کا ایک اور تیز جھونکا آیا۔ اس مرتبہ ٹاپوں کی آواز زیادہ صاف سنائی دی تھی۔ ’’وہ اسی طرف آرہے ہیں۔ ‘‘کیپٹن اشرف بولا۔ میں نے کہا۔’’ اگر وہ سر پر آگئے تو کسی ٹیلے کی آڑ لے کر مقابلہ کرنا ہی پڑے گا۔‘‘ میری بات کے جواب میں کوئی کچھ نہیں بولا۔ تیز دوڑتے ہوئے بولنا، مشکل تو ہوتا ہے۔ جلد ہی ہوا کے جھونکے کے بغیر ہی ٹاپوں کی آواز صاف سنائی دینے لگی۔ پہاڑ ابھی دور تھے لیکن اونچے نیچے سنگلاخ ٹیلوں کی وجہ سے مجھے قدرے اطمینان تھا کہ ہم لوگ فوراً ان کی نظر میں نہیں آتے۔ ٹاپوں کی آواز بہ تدریج کم ہوتی ہوئی ختم ہوگئی۔ ’’وہ کسی جگہ رک گئے ہیں۔‘‘ زاہد بولا۔ سانس پھولنے کی وجہ سے الفاظ اس کے منہ سے ٹکڑوں میں ادا ہوئے تھے۔ یہی حالت سب کی تھی۔ ’’شاید وہ اپنے ساتھی کی لاش کے پاس رکے ہوں۔ ‘‘میں نے کہا۔ ’’میرے الفاظ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر میرے منہ سے نکلے تھے۔ ’’ہمیں تو بس دوڑتے رہنا چاہیے۔‘‘ اس بار سونیا بولی تھی۔ سب سے زیادہ پھولی ہوئی سانس اس کی تھی۔ اور ہم دوڑتے رہے۔ ایک منٹ بعد ہی ٹاپوں کی آواز پھر سنائی دینے لگی اور جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ ہماری ہی طرف آرہے تھے۔ بہ مشکل ایک منٹ بعد اس کا یقین بھی ہوگیا۔ ’’انھیںکیسے معلوم ہوا کہ ہم نے ادھر کا رخ کیا ہے؟ ‘‘علی محمد بولا۔ ’’سیدھی سی بات ہے۔ ‘‘اشرف بولا۔ ’’چھپنے کے لیے ہم ان پہاڑوں ہی کا رخ کرسکتے ہیں۔‘‘ ’’ہمیں فی الحال کسی ٹیلے کی آڑ لے لینی چاہیے۔ شاید اس طرح ان کی نظر میںآنے سے بچ جائیں ‘‘ ۔ سونیا بولی ۔ تجویز معقول تھی ۔ ہم لوگوں کی سانسیں بھی بری طرح پھول چکی تھیں ۔ سامان اٹھا کر دس منٹ تک دوڑنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا ۔ ’’بس اسی ٹیلے کی آڑ لے لیتے ہیں ۔‘‘ میں نے اپنے قریب ترین ٹیلے کی طرف اشارہ کیا ۔سب اسی ٹیلے کی آڑ میں ہوگئے اور اپنی پھولی ہوئی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگے ۔ ہتھیار ہمارے ہاتھوں میں تھے ۔ مقابلے کے لیے تیار تو رہنا تھا ہمیں ! ’’وہ دو ہیں ۔‘‘ میں نے ٹاپوں کی آواز سے اندازہ لگایا ۔ ’’دو کوتو آسانی سے ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے !‘‘ سونیا بولی ۔ ’’لیکن گولیاں تو چلانی پڑیں گی۔ ‘‘ میں نے کہا ۔ ’’اور وہ بھی چلائیں گے ، اتنی زیادہ فائرنگ کے باعث بہت زیادہ طالبان ہماری تلاش میں نکل پڑیں گے ۔ ہماری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ان کی نظر میں نہ آئیں اور وہ آگے نکل جائیں۔ ‘‘ میری اس بات پر سبھی نے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔ ہم ٹیلے کی آڑ میں بیٹھے ٹاپوں کی آواز قریب آتے سنتے رہے ۔ آخر وہ دونوں گھوڑے نظر بھی آگئے جن کے سواروں کے ایک ہاتھ میں گھوڑے کی لگامیں تھیں اور دوسرے ہاتھ میں آتشیں ہتھیار ! ’’سب لوگ نہ جھانکیں ۔‘‘ میں نے ہدایت کی ۔ اس پر سب نے عمل کیا ۔ صرف میں بس ایک آنکھ باہر نکالے ان دونوں کو دیکھتی رہی ۔ دماغ میں یہ خیال تھا کہ شاید وہ اپنا رخ بدلیں ، لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ پھر اچانک جو کچھ ہوا تھا ، اس کا علم بعد میں ہوا ۔ ایک سواراپنے گھوڑے سے گر کر تڑپنے لگا تھا ۔ دوسرے سوار نے جو آگے نکل آیا تھا ، فوراً اپنے گھوڑے کی لگامیں کھینچیں اور پیچھے دیکھتا ہوا چیخا ۔ ’’کیا ہوا فاضل خان ؟ ‘‘ اگر وہ چیخا نہ ہوتا تو اس کی آواز ہم تک نہ پہنچتی ۔ دونوں گھوڑے ابھی ہمارے اتنے قریب نہیں آئے تھے ۔ دوسرا سوار اپنا گھوڑ ا موڑ کر تیزی سے اپنے تڑپتے ہوئے ساتھی کی طرف بڑھا ۔ وہ اس کے قریب پہنچا ہی تھا کہ کسی جانب سے سنسناتا ہوا ایک تیر اس کی طرف بڑھا اور اس کی گردن میں ترازو ہوگیا ۔ میں نے اسے بھی گھوڑے سے گرتے اور تڑپتے ہوئے دیکھا ۔ وہ ایک ایسا منظر تھا جس سے میرا دماغ چکراگیا ۔ قیاس بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ وہ تیر کس نے چلائے تھے ۔ ’’ٹاپوں کی آواز اب نہیں آرہی ۔‘‘ زاہد بولا ۔ ’’ کیا وہ دونوں رک گئے ؟ ‘‘ ’’ختم ہوگئے۔ ‘‘ میں نے آہستہ سے کہا ۔ ان دونوں پر تیر کس نے چلائے تھے ؟ کل کے اخبار میں پڑھئے !