اس وقت جب میں وزیرستان کی طرف روانگی کے لیے لکھنے بیٹھی ہوں تو مجھے کچھ دن پہلے کی خبر یاد آگئی ۔ تیرہ جون کے ڈرون اٹیک میں تحریک طالبان کا سربراہ ملا فضل اللہ ہلاک ہوچکا تھا ۔ وہ ملا جو بے شمار لوگوں کی ہلاکت کا ذمے دار تھا ، جس کی سفاکی نے آرمی پبلک اسکول کے بچوں کا بھی خون بہایا تھا ۔ اس کی یاد مجھے اس لیے آئی کہ وزیرستان میں اس سے میرا سامنا ہوا تھا اور وہ میری چلائی ہوئی گولی سے بال بال بچا تھا ، اور غالباً اسی لیے بچا تھا کہ اس کی موت ڈرون سے ہونی تھی ۔ اس سے میرا آمنا سامنا کس طرح ہوا تھا ؟ یہ آگے چل کر لکھوں گی ۔ ہمارا پانچ افراد کا مختصر قافلہ ہوائی جہاز کے ذریعے پشاورپہنچا ۔ وہاں ہمارے لیے جیپ تیار تھی ۔ ہم فوراً ہی بنوں روانہ ہوگئے ۔ اپنی اپنی پیٹھ پر لدے ہوئے تھیلے ہم نے جیپ میں رکھ دیے ۔ ان تھیلوں میں خورو نوش کا خاصا سامان تھا ۔ علی محمد نے جو ہمارے ساتھ تھا ، یہی رائے دی تھی کہ ہم بنوں پہنچنے کے بعد وزیرستان کا رخ کریں گے ۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ ہمیں ایک دشوار گزار راستہ اپنانا ہوگا ورنہ عام راستے سے تو ہم کسی وقت بھی طالبان کے ان جاسوسوں کی نظر میں آجائیں گے جو آس پاس کے تمام شہروں میں پھیلے ہوئے تھے ۔ وہ ایسے لوگوں پر نظر رکھتے تھے جو وزیر ستان کا رخ کرتے تھے ۔ ایک سواسی منٹ کا فاصلہ طے کرکے جب ہم بنوں پہنچے تو بھوک سے ہمارا برا حال تھا ، سفر میں تین گھنٹے گزر گئے تھے ۔ ’’ہمیں کھانا یہیں کھا لینا چاہیے۔ ‘‘میں نے کہا۔ ’’ہمارے ساتھ جو سامان ہے ، وہ ہمیں آئندہ کے لیے محفوظ رکھنا چاہیے ۔‘‘ ’’یہاں کہیں ڈھنگ کا کھانا مل بھی سکے گا ؟ ‘‘سونیا بولی ۔ ’’ برہان گیٹ کے آگے ایک اچھا ہوٹل ہے ۔‘‘علی محمد بول پڑا ۔’’ سیدھے چلیے!‘‘اس نے زاہد سے کہا جو ڈرائیونگ سیٹ پر تھا ۔ جیپ آگے بڑھنے لگی ۔ ’’ یہاں سے ہم اندھیرا پھیلنے کے بعد ہی وزیرستان کی طرح بڑھیں تو بہتر ہوگا ۔‘‘ علی محمد پھر بولا ۔ ’’ابھی ڈھائی بجے ہیں ۔ رات تک کا وقت کیسے گزرے گا ؟‘‘ اشرف بولا ۔ ’’تم بھول رہے ہو اشرف! عادل ہوٹل کے کمرے میں کوئی ہمارا منتظر ہوگا ۔ اسے ہم سے پہلے بھیج دیا گیا تھا ۔‘‘ میں بول پڑی ۔ ’’ہم رات تک کا وقت وہیں گزارسکتے ہیں ۔ویسے ہم سیاح بھی نظر آرہے ہیں۔ گھوم پھر کر وقت گزارا جاسکتا ہے ۔‘‘ پھر میں نے علی محمد سے پوچھا ۔’’یہاں گھومنے پھرنے کے لیے کون سے مقامات ہیں ؟‘‘ ’’بنوں پارک ہے ۔‘‘ علی محمد نے بتایا۔’’بنوں کینٹ مارکیٹ میں شاپنگ کرکے بھی وقت گزارا جاسکتا ہے ۔‘‘ ’’کھانا عادل ہوٹل میں کھایا جائے تو کیا حرج ہے ؟‘‘ زاہد بولا ۔ ’’ میں آپ کو جہاں لے جانا چاہتا ہوں ، وہاں مزے دار کھانا ملے گا ۔‘‘ علی محمد کی بات مان لی گئی۔ جیپ آگے بڑھتی رہی ۔ ہر طرف پٹھان ہی نظر آرہے تھے ۔ عورتیں سیاہ اور سفید برقعوں میں تھیں ۔ ہمیں وہاں کوئی اور سیاح نہیں دکھائی دیا۔ میرے استفسار پر علی محمد نے کہا ۔’’وزیرستان میں ہونے والے فوجی آپریشن کی وجہ سے سیاح فی الحال یہاں نہیں آرہے ہیں ۔‘‘ ’’ اس طرح تو ہم نمایاں ہورہے ہوں گے ۔‘‘ میرے لہجے میں تشویش تھی ۔ ’’وہ تو ہے۔‘‘ علی محمد نے کہا ۔ ‘‘ بہتر ہوتاکہ ہم پشتونوں کے روپ میں یہاں آتے۔‘‘ میں نے سونیا سے کہا ۔’’ شاید بگ پرسن نے اس پہلو پر غور نہیں کیا ۔‘‘ ’’ غلطی تو انسان ہی سے ہوتی ہے ۔‘‘ میں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔ برہان گیٹ سے گزرکر علی محمد نے جیپ رکوائی ۔ اس ہوٹل کے کھانے واقعی خاصے مزے دار تھے ۔پیٹ بھرنے کے بعد ہم عادل ہوٹل پہنچے ۔ کمرے کا نمبر ہمیں بتایا جاچکا تھا ۔ وہاں ایس آئی ایس کی ایک عمر دراز لیفٹیننٹ موجود تھی ۔ وہ ادب سے پیش آئی ۔ ’’خچروں کا بندوبست ہوگیا ہے؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا ۔ ’’ جی ہاں کیپٹن !‘‘ علی محمد نے مسٹر داراب کو بھی بتادیا تھا کہ یہاں ہمیں خچروں پر سفر کرنا ہوگا کیوں کہ اس دشوار راستے پر جیپ نہیں چل سکتی تھی ۔ ’’ہم پانچوں کا حلیہ بدلنے میں تمھیں کتنی دیر لگے گی ؟‘‘ میرا دوسرا سوال تھا ۔ ’’ دو گھنٹے تو لگ جائیں گے کیپٹن !‘‘ ’’ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں بس دو گھنٹے کا وقت کہیں گھومتے پھرتے ہوئے گزارنا ہے ۔‘‘ میں نے کہا ۔‘‘ اور اس کے لیے پارک کی بہ جائے مارکیٹ چلا جائے ۔‘‘ سب نے میری تجویز سے اتفاق کیا ۔ ہم نے اپنا سامان وہیں چھوڑ کر بنوں کینٹ مارکیٹ کا رخ کیا ۔ مقصد شاپنگ کرنا نہیں ، صرف وقت گزاری تھا اور اس دوران میں یہ بھی چیک کرنا تھا کہ کوئی ہماری نگرانی تو نہیں کررہا ہے ۔! مارکیٹ سے واپسی تک یہ اطمینان ہوگیا کہ ہماری نگرانی نہیں ہورہی تھی ۔ لیفٹیننٹ بہت اچھی میک اپ وومین تھی ۔ اس نے ہم سبھی کو پٹھانوں کی طرح سرخ و سفید کردیا ۔ ہمارے لیے وہاں ایسا لباس بھی موجود تھا جو پشتون استعمال کرتے ہیں ۔ اب رات ہوچکی تھی ۔ لیفٹیننٹ نے ہمیں اس جگہ پہنچادیا جہاں خچر کھڑے کیے گئے تھے ۔ انھیں سواری ہی کے لیے سدھا یا گیا تھا ۔ ہم ان پر بیٹھ کر علی محمد کی رہ بری میں روانہ ہوگئے ۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ چاندنی رات نہیں تھی ۔ آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے بھی تیر رہے تھے ۔ ’’ یہاں بارش کبھی کبھار ہی ہوتی ہے ۔ ‘‘ علی محمد نے بتایا تھا ۔ ’’ ہم کس راستے سے وزیرستان میں داخل ہوں گے ۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا ۔ ’’اس کی فکر نہ کیجئے !.....میں لے چل رہا ہوں نا آپ کو۔‘‘ علی محمد نے جواب دیا ۔’’ہم وزیرستان کی حدود میں داخل ہونے کے بعد دتا خیل اور میر علی کے درمیانی راستے سے آگے بڑھیں گے ۔اسی طرف سے وہ وادی ہے، جسے طالبان نے ’’مرکز‘‘ کا نام دیا ہے ۔‘‘ میرے ذہن میں ابتداہی سے یہ سوال چکرارہا تھا کہ ائیر فورس کے جہاز سارے وزیرستان پر چکر لگاتے ہوئے طالبان کے ٹھکانے تلاش کرتے تھے ، انھیں آخر وہ وادی کیوں دکھائی نہیں دی ۔ میں اس بارے میں علی محمد سے سوال کرنے ہی والی تھی کہ ایک جانب سے کسی کی کڑک آواز سنائی دی ۔ ’’ترسوک ئی؟‘‘ ’’زمامامیران شاہ تا۔‘‘علی احمدنے اسے جواب دیا۔ یہ دو جملے تو میں نے پشتو میں لکھ دیے لیکن آئندہ اردو ہی لکھوں گی نامعلوم شخص نے پشتو میں پوچھا تھا ۔’’ کون ہو تم لوگ؟کہاں جارہے ہو؟‘‘ اور علی محمد نے جواب دیا تھا ۔‘‘ ہم میران شاہ جارہے ہیں۔‘‘ کیا وہ نامعلوم شخص کسی پریشانی کا سبب بنا ؟ کل کے اخبار میں پڑھیئے!