ہمیں للکارنے والاشخص ایک چھوٹے سے پتھریلے ٹیلے پر کھڑا تھا ۔ اس کی عمر چھبیس اٹھائیس سال کے لگ بھگ ہوسکتی تھی ۔ شلوار قمیص پر واسکٹ پہنے ہوئے تھا ۔ ٹھوڑی پرخشخشی داڑھی تھی ، سر پر سرمائی ٹوپی پہنے ہوئے تھا ۔ ہاتھوں میں کلاشنکوف تھی جو وہ ہم لوگوں کی طرف تانے ہوئے تھا ۔ علی محمد کا جواب سننے کے بعد وہ کسی قدر غصے میں بولا۔ ’’ میں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ تم لوگ کون ہو؟‘‘ زبان پشتو ہی تھی ۔’’ہم بنوں سے آئے ہیں ۔‘‘ اس بار بھی علی محمد نے جواب دیا ۔میرے ذہن میں تیزی سے یہ سوال گردش کررہا تھا کہ اس معاملے سے کس طرح نمٹا جاسکے گا ۔ وہ شخص یقینا طالبان میں سے تھا جسے یہاں پہرے پر مامور کیا گیا ہوگا کہ اس طرف سے وزیرستان میں قدم رکھنے والوں پر نظر رکھ سکے ۔ ’’بنوں سے کیوں آئے ہو ادھر؟‘‘ طالب غرایا۔ ’’ ہم ایک ہی خاندان کے لوگ ہیں ۔‘‘ علی محمد نے جواب دیا ۔ ’’ہمارے گھر کی ایک لڑکی میران شاہ میں بیاہی تھی دو سال پہلے! ہم اسی کی خبر لینے جارہے ہیں ۔‘‘ ’’ میران شاہ کو کھنڈر بنادیا ہے پاکستان کے کافروں نے ۔‘‘ طالب نے بڑی نفرت سے کہا۔’’اگر وہ لڑکی زندہ ہے تو مہاجرین کے کیمپ میں ہوگی ۔ وہاں ڈھونڈو اسے جاکر !‘‘ ’’اب یہاں آئے ہیں تو س کا گھر دیکھ کر ہی مہاجر کیمپ جائیں گے، اگر تم ہمیں وہاں جانے دو ۔ اگر اجازت نہیں دو گے تو پھر واپس ہی لوٹیں گے ۔‘‘ ’’ اس کا کیا ثبوت ہے کہ تم پٹھان ہو!‘‘ ’’ کیا ہم پشتو نہیں بول رہے ہیں؟ کیا ہم شکلوں سے پٹھان نظر نہیں آتے ؟‘‘ ’’ تم لوگ جاسوس بھی ہوسکتے ہو ۔‘‘ طالب نے کہا ۔’’پاکستانی کافر فلمیں بھی بناتے ہیں ۔ چہرے بدل لیتے ہیں۔ تم لوگ پشتو سیکھ سکتے ہو۔‘‘ ’’ تم ہمیں شبے سے دیکھ رہے ہو تو ہم واپس چلے جاتے ہیں ۔‘‘ ’’ اب میں تم لوگوں کو اس طرح تو نہیں جانے دوں گا۔ ‘‘ طالب نے ٹیلے سے اترتے ہوئے کہا ۔ وہ ہم پر بہت کڑی نظر رکھے ہوئے تھا۔’’میں دیکھوں گا کہ تم لوگ واقعی پٹھان ہو یا نہیں ۔‘‘ اس وقت کسی اور نے دیکھا ہو ، یا نہ دیکھا ہو ،میں نے دیکھ لیا تھا کہ سونیا نے طالب کو آنکھ ماری تھی ۔ طالب اسے عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگا ۔ میں بھی نہیں سمجھ سکی تھی کہ سونیا نے ایسا کیوں کیا تھا ۔ ’’ تم میں سے کوئی ایک میرے قریب آئے۔‘‘ طالب بولا ۔ ’’میں دیکھوں گا کہ تم لوگوں کے چہرے بنائے گئے ہیں یا اصلی ہیں ۔ اے ! ‘‘وہ سونیا کی طرف متوجہ ہوا ۔’’ تم آئو میرے قریب ! ‘‘وہ ٹیلے سے اتر آیا تھا ۔ ’’ میں آجاتی ہوں ، دیکھ لو۔‘‘ سونیا نے کہتے ہوئے اس کی طرف قدم بڑھائے ۔ مجھے سونیا کا آنکھ مارنا بھولا نہیں تھا اور اب اس نے طالب کی طرف بے جھجھک قدم بڑھادیے تھے ۔ طالب اب پوری طرح اس کی طرف متوجہ تھا لیکن ہم لوگوں سے اس کی قدرے بے توجہی ہمارے کام نہیں آسکتی تھی ۔ ہمارے ہتھیار تھیلوں میں تھے ۔ اگر ہم بغیر ہتھیاروں کے اس پر جھپٹنے کی کوشش کرتے تو وہ ہماری طرف سے غافل نہیں رہ سکتا تھا ۔ وہ ہم پر کلاشنکوف کی گولیاں برسادیتا ۔ سونیا اس کے قریب جاکر ہماری طرف مڑی اور انگلی سے ہم لوگوں کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی۔ ’’یہ جاسوس ہی ہیں بھائی!‘‘ اس کا مخاطب طالب ہی تھا ۔’’ ان لوگوں کو کسی طرح معلوم ہوگیا ہے کہ یہاں تم لوگوں کی کوئی بہت ہی خفیہ جگہ ہے جسے تم لوگ مرکز کہتے ہو ۔ یہ لوگ اس کا پتا لگانے آئے ہیں ۔ میں آپریشن سے پہلے سارا وزیرستان گھوم چکی ہوں اس لیے رہ نمائی کے لیے انھوں نے مجھے اپنے ساتھ لیا تھا ۔ کافی رقم بھی دی تھی لیکن راستے بھر یہ لوگ مجھ سے اس طرح پیش آئے ہیں جیسے میں ان کی ملازمہ ہوں ۔ مجھے تم لوگوں سے ہم دردی ہے اس لیے سب کچھ بتا دیا ۔ تمھی لوگ سچے مسلمان ہو ۔ میں نے تمھیں آنکھ اسی لیے ماری تھی کہ تم میری طرف متوجہ ہوجائو ۔ ‘‘ سونیا بولتی ہی چلی گئی تھی ۔ ’’مجھے امید ہے کہ اب تم لوگ مجھے اپنا سمجھو گے ۔ میری تو خواہش تھی کہ کبھی تم لوگوں کا ساتھ ہوجائے۔‘‘ ہم سب سونیا کی اس حرکت پر دم بہ خود رہ گئے تھے ۔ ’’ تمھارے ساتھ اچھا برتائو کیا جائے گا ۔‘‘طالب نے سونیا کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔ اس وقت وہ کلاشنکوف ایک ہی ہاتھ سے سنبھالے ہوئے تھا ۔ ٹریگر پر اس کی انگلی دبنے ہی والی تھی ۔ وہ ہم چاروں کو بھون ڈالنا چاہتا تھا لیکن اسی لمحے سونیا نے اس کی کلائی پر کھڑا ہاتھ مارا اور کلا شنکوف سے نکلنے والی گولیاں زمین سے ٹکرائیں کیوں کہ سونیا کے ہاتھ کی ضرب سے طالب کا ہاتھ نیچے ہوگیا تھا ۔اسی لمحے میں زمین پر گرتے ہوئے سونیا نے اپنی دونوں ٹانگوں کی پنڈلیاں طالب کے ٹخنوں پر ماریں ۔ طالب گر پڑا ۔ جس لمحے میں سونیا کے کھڑے ہاتھ کی ضرب اس کی کلائی پر پڑی تھی تو اس کے منہ سے چیخ جیسی کراہ بھی نکل گئی تھی ۔ سونیا نے مارشل آرٹ کا کھڑا ہاتھ استعمال کیا تھاجس سے اینٹیں بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔طالب کو بھی ایسا ہی لگا ہوگا جیسے اس کی کلائی پر ہتھوڑے کی ضرب لگی ہو ۔ اس کی کلاشنکوف قریب ہی گری تھی جسے سونیا نے بڑی پھرتی سے اٹھایا اور اسے نال کی طرف سے پکڑ کر طالب کے سر پر مارنی چاہی لیکن اس نے پھرتی سے کروٹ لے کر خود کو بچالیا اور کھڑا بھی ہوگیا ۔ یہ سب کچھ بڑی تیزی سے ہوا تھا لیکن اتنی ہی تیزی سے ہم لوگ جھپٹتے ہوئے اس کے قریب پہنچ گئے تھے ۔ کیپٹن زاہد نے اس کا دایاں بازو اور کیپٹن اشرف نے اس کا بازو جکڑ لیا ۔ فوراً ہی طالب نے الٹی قلا بازی کھائی اور ان ونوں کی گرفت سے نکل گیا ۔ یہ کم بخت طالبان بھی تو تربیت یافتہ ہوتے ہیں لیکن اس کا گرفت سے نکلنا اس کے کام نہ آسکا ۔ وہ زمین پر چت گرا تھا اور اسی وقت اس کی کلاشنکوف کا بٹ اتنی زور سے اس کی پیشانی پر پڑا کہ اس کے سر کے دو ٹکڑے ہوگئے ۔ سر کے ساتھ ہی اس کا چہرہ بھی ناک تک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا ۔ کلاشنکوف اب بھی سونیا کے ہاتھ میں تھی اور وہ لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی۔ ’’شاباش سونیا! ‘‘میں نے اس کی پیٹھ تھپکی۔ ’’اس طرح ہم اس خبیث سے تو بچ گئے لیکن تم ایک اور خطرے کو دعوت دے بیٹھی ہو۔‘‘ ’’کیسا خطرہ لیڈر؟ ‘‘سونیا نے تیزی سے پوچھا۔ سونیا نے کس خطرے کو دعوت دی تھی؟ کل کے اخبار میں پڑھیے!