فائرنگ جس طرح اچانک شروع ہوئی تھی ، اسی طرح یک لخت رک بھی گئی اور ایسی چیختی ہوئی آوازیں سنائی دیں جیسے نعرہٓ فاتحانہ لگائے جارہے ہوں ۔ پھر اسی وقت صرف ایک گولی چلنے کی آواز آئی ۔ اس گولی کے چلتے ہی گولیوں کی ایک باڑھ کی آواز بھی سنائی دی ۔ ’’ یہ کیا ہوا لیڈر ؟‘‘ علی محمدنے جلدی سے پوچھا ۔ میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا ۔ میں نے سونیا کو صرف ایک لفظ ’’خیریت ؟‘‘ کا میسج دیا تھا ۔ یہی میسج اشرف کو بھی دیا ۔ سونیا کا فوراً جواب بھی آیا ۔’’ میں اور زاہد خیریت سے ہیں لیکن شاید …‘‘ سونیا اس اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھ سکی تھی ۔ اشرف کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ۔ میں ہونٹ بھینچ کر رہ گئی ۔ نعرہ ٓفاتحانہ پھر سنائی دینے لگے تھے ۔ دوسری گاڑی کی آواز بھی اب بہت قریب آچکی تھی ۔ اس میں بھی سات آٹھ افراد کی موجودگی ممکن تھی ۔ سونیا کا ایک جوشیلا میسج آیا ۔ ’’ جوکچھ ہوگیا ، کیا ہمیں اس کا انتقام نہیں لینا چاہیے ؟ ‘‘ ’’بے وقوفانہ سوچ سے بچو‘‘ ۔ میں نے اسے طویل جواب دیا ۔ ’’ دوسری گاڑی بھی آگئی ہے ۔ ہم تین افراد ان سب پر حاوی نہیں ہوسکتے ۔ ہم کسی ایکشن فلم کے مرکزی کردار نہیں ہیں کہ پانچ گنا زیادہ دشمن کو ختم کرسکیں ۔ عقل مندی یہ ہے کہ خود کو پوشیدہ رکھو ۔‘‘ مجھے انجنوں کی آواز سے اندازہ ہورہا تھا کہ دوسری گاڑی ، پہلی گاڑی کے قریب پہنچ چکی تھی ۔ ان لوگوں کے نعرہٓ فاتحانہ بھی سنائی دیے تھے ۔ ہم ٹیلوں کی آڑ میں چھپے رہے ۔ چھ سات منٹ بعد دونوں گاڑیاں واپس جانے لگیں ۔ دونوں جیپیں ہی تھیں ۔ ’’و ہ لوگ مطمئن ہوگئے ہیں۔ ‘‘ میں نے سرگوشی کی ۔ ’’ انھوں نے غالباً یہ سمجھا ہوگا کہ ایک ہی آدمی ادھر آیا تھا ۔ اب وہ اپنی تلاش جاری نہیں رکھیں گے۔ ‘‘ ’’یہ تو ہمارے حق میں اچھاہوا ! ‘‘ ’’ہاں۔ ‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لی ۔ ’’ ایک ساتھی کی قربانی دے کر ۔‘‘ گاڑیوں کے انجنوں کی آوازمعدوم ہو چکی تھی جب میں اور علی محمد ٹیلے کی آڑ سے نکل کر اس ٹیلے کی طرف بڑھے ۔ جس کی آڑاشرف نے لی تھی۔ہمیں دیکھ کر سونیا اور زاہد بھی ٹیلے کی آڑ سے نکلے۔ اشرف کے جسم میں بیس تیس گولیاں لگی تھیں۔ وہ چھلنی ہوچکا تھا ۔ ’’ ہماری مہم کا پہلا شہید ۔‘‘ میری آواز خفیف سی بھراگئی ۔ دشمن اشرف کا سارا سامان اٹھالے گیا تھا ۔ اشرف کی لاش کے قریب سیٹلائٹ فون کے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے ۔ اب میری سمجھ میں آگیا کہ صرف ایک گولی چلنے کی آواز کیوں سنائی دی تھی ۔ اشرف نے مرنے سے قبل وہ گولی سیٹلائٹ فون پر چلائی تھی تاکہ دشمن کو اس سے کسی قسم کی معلومات حاصل نہ ہوسکیں ۔ اگر وہ انھیں صحیح سالم مل جاتا تو وہ جان لیتے کہ اشرف کے کچھ اور ساتھی بھی کہیں نہ کہیں چھپ گئے ہیں۔ ’’ اب کیا کیا جائے لیڈر ؟‘‘ زاہد نے پوچھا ۔’’زمین تو سنگ لاخ ہے ۔ اشرف کی لاش دفن بھی نہیں کی جاسکتی ۔ ‘‘ ’’ ہاں ۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لی ۔‘‘ بس فاتحہ پڑھ لو اور پھر آگے بڑھو ۔‘‘ میں نے محسوس کیا تھا کہ اشرف کی موت پر علی محمد بھی مغموم ہوگیا تھا ۔ اشرف کی لاش پر فاتحہ پڑھنے کے بعد ہم نے آگے بڑھنا شروع کیا ۔ میرا دل بوجھل ہوگیا تھا ۔ یہی حالت میرے ساتھیوں کی بھی ہوگی ۔ پندرہ منٹ میں ہم پہاڑ تک پہنچ گئے ۔ میرے اندازے کے مطابق وہ دو سو فٹ بلند ہونا چاہیے تھا ۔ ہمیں جس سرنگ تک پہنچنا تھا ، وہ پچاس فٹ کی بلندی پر تھی ۔ اس تک پہنچنے کے لیے ہمیں ویکیوم ہینڈ گلوز اور رسے استعمال کرنے پڑے ۔ اس سرنگ میں ہمیں دشمن کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ علی محمد نے بتایا تھا کہ وہ لوگ باقی دو سرنگیں تو استعمال کرتے تھے لیکن اس سرنگ میں ایسی بو تھی کہ وہ لوگ اسے استعمال نہیں کرتے تھے ۔ ’’ اشرف کے بعد ۔‘‘ میں نے کہا ۔’’بھوک تو اڑی ہوئی ہے لیکن ہمیں کچھ کھالینا چاہیے ۔ہمیں اپنی توانائی برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ۔‘‘ ہم نے جیسے تیسے کچھ زہر مار کیا اور پھر اپنا سامان شانے پر لاد کر سرنگ میں داخل ہوئے۔ میں نے تیز روشنی کا لیمپ جلا لیا تھا کیوں کہ سرنگ میں گہری تاریکی تھی ۔ سرنگ میں داخل ہوتے ہی ہمیں بو بھی محسوس ہوگئی تھی ۔ شاید وہ سڑے ہوئے خون کی بو تھی جسے برداشت کرنا آسان نہیں تھا لیکن ہم لوگ وہ برداشت کرنے کے لیے مجبور تھے ۔ مجھے کئی مرتبہ ابکائی آئی ۔ سونیا اور زاہد کو دو تین بار قے بھی ہوگئی ۔ مجھے ڈر یہ تھاکہ وہ بو ہم میں سے کسی کو بے ہوش نہ کردے ۔ سرنگ دو دو ، چار چار فٹ کے بعد کسی نہ کسی طرف مڑ جاتی تھی ۔ اس کی دیواروں میں نوکیلے پتھر بھی تھے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ سرنگ انسانی ہاتھوں نے نہیں بنائی تھی ، وہ قدرتی تھی ۔ بو کی وجہ سے اذیت ناک اور تھکادینے والے سفر کے بعد جب ہم اس سرنگ سے باہر نکلے تو صبح ہورہی تھی ۔ ہمارے سامنے ایک طویل و عریض وادی تھی جس کے بہت سے مکانات بم باری کا نشانہ بن چکے تھے۔ پاکستان ائیر فورس نے انھی مقامات کو نشانہ بنایاہوگا جہاں انھیں طالبان کی موجودگی کا علم ہوا ہوگا لیکن زیادہ تباہی کا سبب یقینا وہ راکٹ تھے جو افغانی سرحد سے پھینکے گئے تھے اور بد نام کیا گیا تھا پاکستان کو کہ اس نے آبادی پر بم باری کی تھی اور راکٹ برسائے تھے ۔ ڈیڑھ لاکھ کی آبادی کی وہ وادی اب شہر خموشاں بن چکی تھی ۔ ساری آبادی وہاں سے رخصت ہوچکی تھی اور پاکستان کی سرحدوں پر بنائے گئے کیمپوں میں فرد کش تھی ۔ صحیح سالم اور بم باری سے تباہ شدہ مکانات زرد یا نیلے سے رنگ کے تھے ان میں کئی منزلہ عمارتیں بھی تھیں ۔ وہاں کسی ذی روح کا امکان نظر نہیں آرہا تھا ۔ گلی کوچوں کے جانور بھی خوف زدہ ہو کر بھاگ چکے تھے ۔ ’’نیچے اترنا مشکل نہیں ہے لیڈر! ‘‘ علی محمد بولا ۔ میرے ساتھیوں کی دیکھا دیکھی ، وہ بھی مجھے ’’ لیڈر‘‘ ہی کہتا رہا تھا ۔ ’’بتا چکے ہو تم۔ ‘‘ میں نے کہا ۔ ’’یہ بھی بتا چکے ہو کہ آبادی کے علاقے کے بعد ہمیں جو پہاڑ عبورکرنا ہے اس میں کوئی سرنگ نہیں ہے ،ہمیں اوپر چڑھنا ہو گا ۔‘‘ ’’اور وہ نہایت خطرناک ہوگا۔‘‘ علی محمدنے کہا ۔ ’’ہوا کرے ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ہمیں سب کچھ کرنا ہوگا ۔‘‘ ’’اوہ !‘‘ سونیا کی چونکی ہوئی آواز سن کر میں اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔ وہ دوربین آنکھوں سے لگائے وادی کا جائزہ لے رہی تھی ۔ اس نے کہا ’’یہ دونوں تو طالبان معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘ میں نے اس طرف نظر دوڑائی جدھر سونیا دیکھ رہی تھی ۔ ’’بہت دور ہیں وہ ۔‘‘ سونیا بولی ۔ ’’دور بین سے بھی بہت چھوٹے چھوٹے نظر آرہے ہیں۔ ‘‘ میں نے اس سے دوربین لے کر دیکھا ۔ اس شہر خموشاں میں دو طالبان کی موجودگی قابل غور تھی ۔ وہ دو طالبان وہاں کیوں تھے ؟ کل کے اخبار میں پڑھئے !