میں اور ساتھی سانس روکے یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔ جیکٹ پہننے والوں کے چہروں پر مسرت تھی ۔ خود کش جیکٹوں پر انھیں قمیص پہنائی گئیں جن میں جیکٹس چھپ گئیں ۔ ’’ ریوالور نہیں دیے جائیں گے تمھیں!‘‘ جیپ میں آنے والے ایک طالبان نے لڑکوں سے کہا ۔’’فائرنگ نہیں کرنا ہے تمھیں ۔بس دھماکا کرنا ہے ۔جنت میں حضور اکرم ﷺ تمھارا استقبال کریں گے اور ستر حوریں تمھاری خدمت گزار بنیں گی ۔‘‘ ایک نوجوان بولا ۔’’ہمیں اب تک یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ حوریں کیسی ہوں گی !‘‘ ’’ وہ مشک اورزعفران سے بنائی گئی ہیں ۔‘‘ طالبان نے جواب دیا ۔‘‘ کیا تم بھول گئے ۔‘‘ تمھیں مولانا کی تقریریں سنوائی گئی ہیں ۔انھوں نے وضاحت سے بتایا تو ہے ! ان کے قد ستر فٹ کے ہوں گے ۔ انھی کی طرح تمھارے قد بھی اتنے ہی بڑھ جائیں گے وہاں ۔‘‘ ’’ سچ مچ وہ ایسی ہی ہوں گی ؟‘‘ دوسرے نوجوان نے بڑے اشتیاق سے پوچھا ۔ ’’ کیا مولانا جھوٹ بولیں گے۔‘‘ پہلے طالبان نے منہ بگاڑ کا کہا ۔ ’’ نہیں ! مولانا جھوٹ نہیں بول سکتے !‘‘ نوجوان نے کہا۔’’بس اشتیاق اتنا ہے کہ ان کے بارے میں سوال کر بیٹھا ۔‘‘ ’’ وہ دنیا کی عورتوں سے زیادہ خوبصورت ہوں گی اور ان کے حسن میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا ۔ وہ دنیا کی عورتوں کی طرح کبھی بوڑھی نہیں ہوں گی اور تم بھی ہمیشہ جوان رہو گے ۔یہ سب کچھ تمھیں سمجھایا جاچکا ہے ، اور کیا تم نے قرآن مجید میں نہیں پڑھا؟‘‘ ’’ پڑھا ہے ۔‘‘ اس بار دونوں نوجوان بہ یک وقت بول اٹھے ۔ اس بات پر میرا ذہن چکرا گیا کہ ان دونوں نے قرآن مجید میں بھی حوروں کی وہ وضع قطع پڑھی تھی ۔ قرآن مجید میں نے پڑھا ہے اور با معنی ٰپڑھا ہے ۔ قرآن میں ایسی سورۃ میں نے نہیں پڑھی تھی لیکن وہ دونوں نوجوان پڑھ چکے تھے ۔ ’’ اگر ۔‘‘ طالب پھر بولا ۔‘‘ اگر تم دونوں کسی بھی وجہ سے ناکام ہوجائو، یعنی ٹارگٹ تک نہ پہنچ سکو تو ڈیفنس چلے جانا ۔ اس کا پتا لکھ کر دینا مناسب نہیں تھا، اس لیے تمھیں زبانی یاد کرادیا گیا تھا ۔ وہاں غوث خاں تم دونوں کو پناہ دے گا اور وہی تمھیں بتائے گا کہ ٹارگٹ تک پہنچنے کی کوشش تم دوبارہ کب کروگے ۔ تمھیں یہ باتیں بار بار بتائی جاچکی ہیں اور اس وقت بھی سب کچھ اس لیے بتایا جارہا ہے کہ تمھیں ہر بات ذہن نشیں رہے ۔ بس اب تم دونوں روانہ ہوجائو۔‘‘ دونوں نوجوانوں نے اثبات میں سر ہلائے اور دروازے کی طرف بڑھے ۔ ’’ فی امان اللہ ۔‘‘ ان دونوں طالبان نے لڑکوں سے کہا جو وہاں خودکش جیکٹس بنارہے تھے ۔ لڑکوں کے ساتھ وہی دونوں طالبان دروازے کی طرف بڑھے جو انھیں لے کر آئے تھے ۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور ہم واپس اوپری منزل پر آگئے ۔ کھڑکی سے میں نے جھانک کر دیکھا ۔ جیپ سے موٹر سائیکل اتاری جاچکی تھی اور ایک نوجوان اس پر بیٹھ چکا تھا ۔ پھر دوسرا اس کے پیچھے بیٹھ گیا ۔ پہلے نے انجن اسٹاٹ کیا ۔ دونوں طالبان نے ہاتھ اٹھا کر ان دونوں کو الوداع کہتے ہوئے کچھ کہا ۔ان کی آواز ہم تک نہیں پہنچ سکی ۔ میں ان کے ہونٹوں کی جنبش سے اندازہ لگاسکی کہ انھوں نے بھی ’’ فی امان اللہ‘‘ کہا تھا ۔ میرا خون کھول گیا ۔میں ان لوگوں کے اس طریقہ کار کے بارے میں سنتی تو رہی تھی ، اس دن دیکھ اور سن بھی لیا ۔ پانچ منٹ بعد ہی میں سیٹلائٹ فون پر مسٹر داراب کو اطلاع دے رہی تھی کہ دوخودکش بم باروں کو بنوںں کی طرف روانہ کیا گیا ہے ۔ میں نے ان دونوں کی وضع قطع بھی بتائی ، پھر کہا ۔’’یہ میں نہیں جان سکی کہ ان کا ٹارگٹ کیا ہے ۔ انھیں بنوں ہی میں گرفتار کیا جاسکتا ہے ۔‘‘ ’’ شاباش کیپٹن صدف!‘‘ مسٹر داراب نے کہا۔ ’’بہت قیمتی اطلاع دی ہے تم نے لیکن میں تمھاری مکمل رپورٹ کا منتظر ہوں ۔‘‘ ’’ پہلے آپ ان خودکش بم باروں کے بارے میں پولیس کو آگاہ کیجئے۔ میں چند منٹ میں مفصّل رپورٹ دوں گی۔‘‘ ’’ ٹھیک ہے۔‘‘ دوسری طرف سے رابطہ منقطع کردیا گیا ۔ ’’ تو یہ ہے ان مسلمانوں کا طریقہ واردات۔‘‘ میں نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ میں نے لفظ ’’ مسلمانوں‘‘ پر زور دیا تھا ۔’’ ان دونوں کو سات آٹھ سال پہلے اغواکیا گیا ہوگا ۔ اس سارے عرصے میں ان کی تربیت کی گئی اور انھیں یقین دلایا گیا کہ ہم پاکستان کے لوگ کافر ہیں ۔‘‘ ’’ قرآن میں نے بھی پڑھا ہے ۔‘‘ زاہد بولا ۔’’میں نے وہ سب کچھ نہیں پڑھا جو ان نوجوانوں نے پڑھا ہے ۔‘‘ میں نے سر ہلایا ، پھر بولی ۔’’ ہمیں آج کا دن گزارنے کے لیے اپنا ٹھکانا اس سے اوپر کی منزل پر بنانا چاہیے ۔ یہاں سے پہاڑوں کی طرف ہم رات کو ہی روانہ ہوں گے ۔‘‘ کسی کو بھی یہ تجویز نا پسند آہی نہیں سکتی تھی ۔ ہم اس سے اوپر کی منزل پر چلے گئے ۔ سامان بھی وہیں رکھا گیا ۔ پھر میں نے مسٹر داراب سے دوبارہ رابطہ کیا اور انھیں بتانے لگی کہ وزیرستان میں داخل ہوتے ہوئے کیا کیا واقعات پیش آتے رہے ۔ اشرف کی موت پر انھوں نے اظہار افسوس کیا ۔’’ تیر اندازی ‘‘ کا واقعہ ان کے لیے بھی ناقابل فہم تھا ۔ سب کچھ سننے کے بعد انھوں نے کہا ۔ ’’ تم اس وقت جہاں ہو ، اس مکان کو تباہ کروانا چاہیے ۔‘‘ ’’ بالکل کروانا چاہیے ۔‘‘ میں نے کہا ۔‘‘ لیکن رات ہونے کے بعد ! میں آپ کو بتاچکی ہوں کہ دن ہمیں یہیں گزارنا ہے ۔ اسے تباہ کرنے کے لیے طیارہ اس علاقے میں ساڑھے آٹھ بجے پہنچے۔ہم لوگ اس سے پہلے کھانا کھالیں گے ۔ طیارے کو یہاں رائونڈ لگاتے دیکھ کر میں ٹارچ سے سگنل دے دوں گی ۔ جہاں سے سگنل دیا جائے گا ،اسی مکان کو تباہ کرنا ہے ۔ سگنل ملنے کے آدھے گھنٹے بعد طیارہ اپنی کارروائی کرے ۔ پندرہ منٹ میں ہم یہاں سے نکل چکے ہوں گے ۔‘‘ ’’ ٹھیک ہے ۔ یہ بھی تم لوگوں کا ایک اہم کارنامہ ہوگا ۔‘‘ ’’ اصل کام وہ ہوگا جب ان لوگوں کے مرکز کو تباہ کروائوںگی ۔‘‘ ’’ مجھے امید ہے کہ تم کام یاب رہوگی ۔‘‘ یہاں ہماری گفت گو ختم ہوگئی ۔ وہ دن ہم نے وہاں باری باری سوتے جاگتے ہوئے گزارا ۔ شام کو ہم نے کوہ پیمائی کا ضروری سامان جمع کیا ۔ وہاں ہمیں پیال کا ڈھیر بھی مل گیا ۔ اس پیال پر ہم اپنا زیادہ سامان بھی گھسیٹتے ہوئے کم از کم پہاڑوں تک تو جاہی سکتے تھے لیکن اس میں خطرہ یہ تھا کہ اس کے کھسکنے سے جو آوازپیدا ہوتی ، وہ ان دونوں طالبان کو چوکنّا کرسکتی تھی ۔ میں اس مسئلے پر غور کررہی تھی کہ کسی گاڑی کے انجن کی آواز سنائی دی ۔ ہم نے دوسری منزل کی کھڑکی سے دیکھا کہ وہ مکان ہی کی طرف آرہی تھی ۔ اس وقت شام کے سرمئی سائے ، رات کی سیاہی میں تحلیل ہونے والے تھے ۔ کچھ دیر بعد ہی ہمارا کوئی طیارہ بھی اس وادی کی فضا میں آجاتا ۔ اس وقت وہ گاڑی کیوں آرہی تھی ؟ یہ کل کے اخبار میں پڑھیے!