میرے بعد زاہد نے بھی دوربین سے ان دونوں طالبان کو دیکھا۔ ’’ یہ دونوں یہاں کیا کررہے ہیں !‘‘ وہ بڑبڑایا ۔ میں نے علی محمد کے تاثرات سے اندازہ لگایا کہ وہ بھی ان طالبان کو دیکھنا چاہتا تھا لیکن اسے دوربین مانگنے کی ہمت نہیں ہوسکی تھی ۔ میں نے زاہد کے ہاتھ سے دوربین لے کر علی محمد کو دی۔’’ لو!تم بھی دیکھو ۔‘‘ علی محمد نے دوربین آنکھوں سے لگائی ۔ میں نے سونیا اور زاہد سے کہا ۔’’ نیچے ہم بعد میں اتریں گے ۔ پہلے ناشتا کرلیں ۔‘‘ تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہم نے پہاڑ سے اترنا شروع کیا ۔ علی محمد کی یہ بات درست تھی کہ وہاں سے اترنا کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔بس ذرا احتیاط کی ضرورت تھی ۔ آخر ہم اس وادی میں اترگئے جہاں کبھی زندگی سانس لیتی تھی ۔ ’’ ہمیں اب پہلے اس مکان کی طرف چلنا ہے جہاں وہ طالبان نظر آئے تھے ۔‘‘ میں نے علی محمد سے کہا ۔ ’’ مجھے خیال تھا لیڈر ! ‘‘ علی محمد نے سر ہلایا ۔ اس مکان کے قریب تک پہنچنا ایک تھکا دینے والا سفر ثابت ہوا ۔ ہم نے ایک شکستہ مکان کی آڑ سے دیکھا کہ وہ طالبان اب وہاں نہیں تھے ۔ ’’ کہاں چلے گئے! ‘‘ سونیا بڑبڑائی ۔ ’’ شاید اب مکان میں چلے گئے ہوں ۔‘‘ زاہد نے کہا۔ ’’ جاننا تو چاہیے کہ وہ مکان میں ہیں یا نہیں ۔‘‘ میں بولی ۔‘‘ اور اگر نہیں ہیں تو وہ اس وقت یہاں کیوں تھے ۔تم تینوں یہیں رکو ،میں جاکر دیکھتی ہوں ۔‘‘ ’’ دن کا وقت ہے لیڈر۔‘‘ سونیا بولی ۔’’اگر وہ دونوں مکان میں ہیں اور پھر باہر نکلے تو آپ ان کی نظر میں آجائیں گی۔‘‘ ’’ وہ مکان کے دروازے پر نظر آئے تھے ۔‘‘ میں نے کہا ۔’’میں ذرا سا لمبا چکر کاٹ کر مکان کی پشت پر پہنچوں گی ۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر اس مکان کی کیا اہمیت ہے ۔ کوئی بات تو ہوگی جو وہ یہاں تھے۔‘‘ ’’ میں بھی تمھارے ساتھ چلتی ہوں لیڈر !‘‘ سونیا بولی ۔ ’’ نہیں ۔‘‘ میں نے سخت لہجے میں کہا ۔’’تم لوگ یہیں رکو ۔‘‘ اس کے بعد کسی کے بولنے کا انتظار کیے بغیر میں حرکت میں آگئی ۔ اپنی پیٹھ پر لدا ہوا سامان میں نے وہیں چھوڑ دیا تھا ۔ صرف رپیٹر گن اپنے ساتھ رکھی ۔ مکان کی پشت پر پہنچنا کوئی پر خطر کام ثابت نہیں ہوا ۔ وہاں رک کر میں نے اوپر کا جائزہ لیا ۔ دو منزلہ مکان کی چھت کے قریب ایک پائپ باہر نکلا ہوا تھا ۔ اس کے قریب عمارت شکستہ تھی۔ مجھے خیال آیا کہ رسّا اوپر پھینک کر پائپ میں پھنسا دیا جائے تو اس کے سہارے اوپر چڑھا جاسکتا ہے ، لیکن میں رسّا اپنے ساتھ نہیں لائی تھی ۔ دوسری صورت یہ تھی کہ میں دیوار سے چپکے چپکے بائیں جانب بڑھتی اور کونے تک پہنچنے کے بعد دائیں طرف مڑ کر دیوار سے چپکی ہوئی دروازے تک پہنچ جاتی لیکن اس میں خطرہ یہ تھا کہ دونوں اگر مکان ہی میں ہوتے تو ان کی نظر مجھ پر پڑ سکتی تھی ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ دونوں پھر کسی وجہ سے باہر نکلتے اور میں ان کی نظر میں آجاتی ۔ ان دونوں کو ختم کرنا کوئی مشکل کام تو نہیں تھا لیکن گولیاں چلنے کی آواز دور تک جاتی ۔ دوسرے طالبان چوکنا ہوجاتے ۔ اشرف کی قربانی نے ہمیں وقتی طور پر تو محفوظ کر ہی دیا تھا لیکن فائرنگ کی آواز ان لوگوں پر ظاہر کردیتی کہ ان کے علاقے میں کوئی اور بھی ہے ۔ اس کے بعد ہماری تلاش شروع ہوجاتی ۔ مجھے پائپ ہی کے ذریعے اوپر چڑھنے اور مکان میں داخل ہونے کا فیصلہ کرنا پڑا ۔ میں رسّالینے کے لیے اپنے ساتھیوں کے پاس واپس پہنچی ۔ ’’ کیا ہوا؟‘‘ سونیا نے جلدی سے پوچھا ۔ ’’ ابھی تو کچھ نہیں ہوا ۔‘‘ میں نے سامان میں سے رسّا نکالتے ہوئے کہا ۔’’میں دوبارہ جائوں گی ۔ چھت کے قریب ایک پائپ نکلا ہوا ہے ۔اس میں رسّا پھنسا کر اوپر چڑھا جاسکتا ہے ۔‘‘ ’’ پائپ کہاں سے آگیا وہاں۔‘‘ ’’ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ وہ پانی کی نکاسی کے لیے ہوگا ۔ بارش یہاں کم ہوتی ہے لیکن ہوتی تو ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس مکان میں رہنے والے چھت کی دھلائی کرتے ہوں ۔ اس کے لیے بھی پانی کی نکاسی کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ’’ پائپ مضبوط ہے ؟‘‘ سونیا کے لہجے میں تشویش تھی ۔ ’’ تم زاہد سے زیادہ بولتی ہو۔‘‘ میں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور وہاں سے چل پڑی ۔ سونیا کے خیال دلانے سے پہلے میرے ذہن میں خیال آچکا تھا کہ پائپ کے قریب ہی کا ایک حصہ بم باری یا کسی راکٹ سے تباہ ہوچکا تھا ۔ یہ بات ممکن تھی کہ اس کی وجہ سے دیوار کا وہ حصہ بھی کم زور ہوگیا ہو جہاں پائپ لگا ہوا تھا ۔ اگر میرے وزن سے وہ دیوار گرتی تو ظاہر ہے کہ پائپ بھی گرتا اور میں دیوار کے اس ملبے سے خاصی زخمی ہوسکتی تھی ۔ لیکن طالبان کی موجودگی کے باعث میں اس مکان کی اہمیت جاننے کے لیے ہر خطرہ مول لینے کے لیے تیار تھی ۔ میں پھر اسی جگہ پہنچ گئی جہاں سے واپس ہوئی تھی ۔ میں نے رسّے کا پھندا نہیں بنایا ۔ اسے اس طرح اوپر پھینکا کہ دونوں سرے میرے ہاتھوں میں رہیں ۔ میں تیسری کوشش میں کام یاب ہوسکی ۔ میں نے فوراً اوپر چڑھنے کی کوشش نہیں کی ۔ احتیاط برتنا ضروری تھا ۔ میں نے رسّے کے دونوں سرے پکڑ کر ان پر اپنا کچھ وزن ڈالا ۔ پھر زمین پر کھڑے کھڑے اپنا وزن بڑھاتی رہی ۔ پائپ نے اپنی جگہ سے جنبش نہیں کی ۔ آخر میں رسّے سے لٹک گئی ۔ کوئی خطرہ پیش نہیں آیا ۔ میں دیوار پر دونوں پیر جما کررسّے کے سہارے آہستہ آہستہ اوپر چڑھنے لگی۔اس وقت بھی میرے ذہن میں یہ خیال تھا کہ جب تک اوپر نہ پہنچ جائوں،خطرہ تو رہے گا ۔ اس کا امکان تھا کہ دیوار کی خستگی زیادہ نہ ہو اور دھیرے دھیرے بڑھتی رہے ۔ پھر میرے اوپر پہنچنے سے پہلے ہی خستگی اتنی بڑھ جائے کہ دیوار کا وہ حصہ اپنی جگہ چھوڑ دے ۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ اگر ایسا ہوا تو میں جست لگا کر نیچے پہنچ جائوں گی تاکہ ملبہ میرے اوپر نہ گر سکے ۔ لیکن سب اندیشے ، بس اندیشے ہی رہے ۔ میں اوپر پہنچنے میں کام یاب ہوگئی ۔چھت پر سناٹا تھا ۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو مجھے نیچے جانے والے زینے دکھائی دے گئے ۔ میں نے رپیٹر گن اوپر چڑھتے وقت اپنے شانے سے لٹکالی تھی ۔ اب وہ شانے سے اتار کر ہاتھ میں سنبھال لی اور بہت دبے قدموں زینے کی طرف بڑھی ۔ میں نہیں چاہ سکتی تھی کہ ذرا سی بھی دھمک نیچے جائے ۔ زینے بھی میں نے اس طرح طے کیے ۔ وہ کوئی جدید طرز کی عمارت تو تھی نہیں کہ زینے اتر کر میں خود کو کسی راہ داری میں پاتی ۔ زینے اتر کر میں ایک کمرے میں پہنچی تھی اور اس کمرے میں قدم رکھتے ہی دم بہ خود رہ گئی تھی ۔ صدف دم بہ خود کیوں رہ گئی ؟ کل کے اخبار میں پڑھیے! ٭٭