کرپشن کے نا سور نے ہمارے ملک کو دیوالیہ کر کے رکھ دیا ہے ، اداروں کی کارگردگی صفر ہو چکی ہے۔’’جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دککان اپنی بڑھا گئے‘‘ پاکستان بننے کے بعد جن سرکاری اہلکاروں نے وطن کی محبت کے لیے انتہائی کٹھن حالات کا مقابلہ کیا اور پھر جس طرح سے بھارت سے آنے والے مہاجرین کو ملک کے کونے کونے میں بسایا وہ لائق تحسین لوگ تھے۔ سردار عطاء محمد خان لغاری مرحوم جو کہ سابق صدر سردار فاروق خان لغاری کے چچا اور سردار جعفر خان لغاری مرحوم کے والد گرامی تھے وہ 1947ء میں لاہور والٹن کیمپ مہاجرین کے انچارج ہوا کرتے تھے۔ سردار عطاء محمد خان لغاری مرحوم شیخ العرب و عجم حضرت سید حسین احمد مدنیؒ کے دست بیعت تھے اور انتہائی نیک فطرت انسان تھے بعد میں کمیشنر ملتان اور سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو بھی رہے تھے۔ اُنہوں نے 1947ء میں جس جذبے کے ساتھ مہاجرین کے لیے کام کیا وہ انتہائی قابل تحسین تھا چونکہ سردار صاحب کرپشن کرنے والوں کو نشان عبرت بنا دیا کرتے تھے ۔ اس لیے جب تک وہ والٹن کیمپ لاہور کے انچارج تھے تو میرٹ پر مہاجرین کو مختلف جگہوں پر آباد کراتے رہے لیکن اُن کے بعد جوسرکاری آفیسران تعینات ہوئے اُنہوں نے کرپشن کا بازار گرم کیے رکھا۔ ہمارے سرکاری اداروں میں کرپشن نے جنرل یحییٰ کے دور میں زور پکڑنا شروع کیا اور پھر بعد میں یہ نا سور روز بروز بڑھتا چلا گیا خصوصاً انجینئرز مافیا کہ جنہوں نے اِس ملک میں سڑکوں اور سرکاری عمارات کی تعمیر شروع کی تو اپنے مفاد کے لیے ٹھیکیداروں میں کرپشن کی ایک نئی اصلاح متعارف کرائی جس کو ’’کمی ‘‘کانام دیا گیا اِسی کمیشن کی خاطر انجینئرز نے سڑکوں اور مختلف سرکاری عمارتوں کی تعمیر میں جی بھر کر کرپشن شروع کر دی یہ سلسلہ آ ج بہت آگے بڑھ چکا ہے سب انجینئر سے لے کر ایکسئین اور چیف انجینئریہاں تک اُس محکمے کا سیکرٹری بھی ارب پتی بن چکے ہیں چونکہ بیوروکریسی نے ہر دور میں اپنے مفادات کا دفاع کیا ہے آج تک ہمارے ملک میں کسی بڑے افسر کو کرپشن سے بر طرف نہیں کیا گیا بلکہ یہ لوگ انٹی کرپشن سے بھی اپنی پارسائی کا سرٹیفکیٹ لے لیتے ہیں اور اِن افسران کو اصل آشیر باد بر سر اقتدار سیاست دانوں کی ہوتی ہے چونکہ انجینئرز مافیا ساست دانوں تک کو اپنے کمیشن میں شامل رکھتے ہیں اس لیے کسی بھی بڑے منصوبے کو پاس کرانے میں اِن لوگوں کا سہارا ضروری ہوتا ہے۔ ڈیرہ غازی خان جو جنوبی پنجاب کا ایک پسماندہ ضلع ہے ۔ ترقیاتی کاموں اور تعلیمی اعتبار سے بھی یہاں کے لوگ بہت پیچھے ہیں ۔ماسوائے تونسہ کے جہاں تعلیمی سرگرمیاں دوسرے علاقوں سے زیادہ ہیں۔سابق صدر سردار فاروق خان لغاری نے اپنے دور صدارت میں شہر میں سیوریج سسٹم اور سڑکوں کا جال بچھایا تھا جبکہ قبائلی علاقوں میں بجلی بھی اُن کے دور میں دی گئی اس طرح سے فورٹ منرو کی تعمیر و ترقی ، شہر میں سوئی گیس اور ائیر پورٹ بھی سردار فاروق خان لغاری کے دور میں بعد میں سابق گورنر سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ نے ڈیرہ غازی خان کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ڈیرہ بورڈ ، میڈیکل کالج کا قیام ، غازی یونیورسٹی اور شہر بھر میں نئے سرے سے سڑکوں کی تعمیر اور سیوریج سسٹم کا کام بھی کرایا پھر اُن کے بعد قدرت نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار کو یہ موقع دیا کہ وہ ڈیرہ غازی خا ن کی پسماندگی کو ختم کرنے میں کردار ادا کریں سردار عثمان بزدار نے اپنے دور اقتدار میں زیادہ تر ترقیاتی کام اپنے آبائی علاقہ بارتھی میں کرائے اور اُس کے بعد تونسہ میں، لیکن افسوس کہ اُن کے دور میں ہونے والے ترقیاتی کاموں میں جی بھر کر کرپشن کی گئی۔ ٹھیکیداروں نے سڑکوں کی تعمیر میں انتہائی ناقص میٹریل استعمال کیا وہ سڑکیں اِس وقت تباہ ہو چکی ہیں جبکہ سردار عثمان بزدار نے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کی عوام کا اصل مسئلہ انڈس ہائی سے کی ڈبل تعمیر کو نظر انداز کیے رکھا انڈس ہائی وے جو تونسہ کے علاقہ رمک سے شروع ہو کر کشمور سندھ تک چلی جاتی ہے یہ ایک مصروف ترین سڑک ہے کہ جس پر کراچی سے لے کر پشاور تک ٹریفک چلتی ہے ۔ اگر ملک میںہونے والے حادثات کی رپورٹ چیک کی جائے تو انڈس ہائی وے پرہونے والے جان لیوا حادثات کی تعداد سب سے زیادہ ہو گی گذشتہ روز عالیوالا کے نزدیک یونین کونسل عالیوالاکا ایک بد قسمت خاندان تیز رفتار کوچز کی زد میں آگیا۔ تیز رفتار کوچز نے موٹر سائیکل رکشے کو ٹکر مار کر کچل دیا اور ایک ہی خاندان کے چار افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ انڈس ہائی وے روڈ کو مقامی لوگ قاتل روڈ کے نام سے پکارتے ہیں، ہر دوسرے دن اِس روڈ پر جان لیوا حادثات معمول بن چکے ہیں لیکن افسوس کہ ڈیرہ غازی خان ، تونسہ شریف اور راجن پور سے بر سراقتدار رہنے والے بلوچ سرداروں نے انڈس ہائی وے کو ڈبل (دو رویہ) کرانے میں اپنا کردار ادا نہ کیا حالانکہ سردار عثمان خان بزدار کم از کم تونسہ سے لے کر جام پور تک انڈس ہائی وے کو ڈبل تعمیر کرا سکتے تھے۔ انڈس ہائی وے کو ڈبل تعمیر کرانے کے لیے میں نے 26 مئی 2021ء کو اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو لیہ میں جنوبی پنجاب کے سات رکنی صحافیوں کے وفد سے ملاقات کے دوران آگاہ کیا تھا اور اُنہیں بتایا تھا کہ انڈس ہائی وے پر کس طرح سے جان لیوا حادثات ہوتے ہیں عمران خان نے اُس وقت چیئرمین نیشنل ہائی وے اور عثمان بزدار کو آپس میں ملاقات کر کے اِس روڈ کی تعمیر کے بارے میں احکامات جاری کیے تھے لیکن عثمان بزدار نے اِس کے سودے میں کوئی دلچسپی نہ لی اور یہ روڈ آج تک ڈبل نہیں ہو سکی ۔یہاں تک کہ اب لوگ اِس روڈ سے لاشیں اُٹھا اُٹھا کر تھک چکے ہیں نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سے اِن سطور کے ذریعے در د مندانہ اپیل ہے کہ خدارا انڈس ہائی وے روڈ کو جتنا جلدی ممکن ہو سکے ڈبل تعمیر کرایا جائے تا کہ آئے روز کے جان لیوا حادثات سے عوام کو نجات مل سکے ۔