آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان اور شمالی وزیرستان کے اضلاع میں انٹیلی جنس پر مبنی دو الگ الگ آپریشنوں میں 10 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز کیآپریشن کے دوران شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد آٹھ دہشت گرد مارے گئے، بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ عسکریت پسند سکیورٹی فورسز کے خلاف متعدد دہشت گردانہ سرگرمیوں اور معصوم شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں سرگرم رہے تھے۔دہشت گردوں کے پاس سے اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا ہے۔حال ہی میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے چند ماہ میںپاکستان میں دہشت گردی سے 432 ہلاکتیں ہوئیں اور تین سو سترعام شہری، سکیورٹی اہلکار اور عسکریت پسند زخمی ہوئے۔ رواں برس کی پہلی سہ ماہی میںانسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے 245 واقعات ہوئے ہیں۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان، دونوں افغانستان کی سرحد سے متصل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انفرادی طور پر 2024 کی پہلی سہ ماہی میں 51 فیصد اور بعد میں 41 فیصد اموات میں اضافہ ہوا۔ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق بڑی کالعدم تنظیمیں جیسے القاعدہ اور ٹی ٹی پی ایک عرصے سے پاکستان میں متحرک رہی ہیں۔شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والا حافظ گل بہادر گروپ 2014 میں فوجی آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں افغانستان منتقل ہو گیا۔ یہ 2018 کے بعد سے شدت پسندانہ کارروائیوں میں فعال ہوا اور اس نے کئی واقعات کی ذمہ داری قبول کی ہے۔اس دوران ٹی ٹی پی نے متعدد چھوٹے شدت پسند گروپوں کو اپنے ساتھ ملایا تاہم حافظ گل بہادر نے ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار نہیں کی اور ایک آزاد حیثیت برقرار رکھی۔دوسری جانب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان میں بظاہر جو نئی تنظیمیں وجود میں آئیں ان میں جبہ انصار المہدی خراسان، اتحاد مجاہدین خراسان، مجلس عسکری، جبہ الجنود المہدی، جیش فراسان محمد، جیش عمری اور تحریک جہاد پاکستان شامل ہیں۔ان تنظیموں کو مالی مدد، تربیت اور ٹھکانے کون دے رہا ہے ،پاکستان اس سوال کو اٹھاتا رہا ہے لیکن اس معاملے پر ٹھوس بات چیت ہنوز دکھائی نہیں دے رہی ۔صوبہ خیبرپختونخوا بوجوہ دہشت گردی کا پہلا ہدف بن چکا ہے۔پاک افغان تعلقات کو غیر خوشگوار رکھنا، پاکستان کو افغانستان کے ذریعے وسط ایشیائی منڈیوں تک پہنچنے سے روکنا اور علاقے کی ترقی کو روکنا دہشت گردی کے پس پردہ مقاصد ہو سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاک افغان بارڈر پر اس کے اثرات نظر آتے ہیں۔ڈیرہ اسماعیل خان اور اس کے نواح کو ایک سٹریٹجک اہمیت حاصل ہے اس لئے یہاں عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں نمایاں ہیں۔ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں 12 دسمبر 2023 کو ایک خود کش حملے میں 23 سکیورٹیاہلکاروں کی شہادت، اس سے پہلے مئی میں بلوچستان کے علاقے مسلم باغ میں ایف سی کیمپ پر حملے اور اسی سال نومبر میں میانوالی کی ایئربیس پر حملے کی ذمہ داری تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی تھی۔یہ تنظیم اس سے پہلے چمن، بولان، سوات کے علاقے کبل اور لکی مروت میں حملوں کی ذمہ داریاں بھی قبول کر چکی ہے لیکن ان میں کم از کم دو حملے ایسے ہیں جن میں اس تنظیم کی موجودگی کے شواہد نہیں ملے تھے۔یہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کے بارے میں حکام اوریہاں تک کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے عہدیدار بھی ماضی قریب تک یا تو کچھ نہیں جانتے تھے یا شاید بتانے سے گریزاں رہے۔پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیا میں شدت پسندی اور اس سے جڑے مسائل پر گہری تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک جہاد پاکستان اب تک ایک پراسرار تنظیم ہے جس کی قیادت، ارکان اور وجود کے کوئی شواہد نہیں۔ دہشت گردی پاکستان کے معاشی ماحول اور سیاسی استحکام کو تباہ کر رہی ہے ۔اس کے اثرات ہر شعبہ زندگی پر پرے ہیں۔براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز کی ایک رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزارون پاکستانی شہری و سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ مزید برآں، حکومت پاکستان کے مطابق، 2000 سے2010 تک دہشت گردی سے بالواسطہ اور بلا واسطہ نقصان کا تخمینہ 68 بلین ڈالر تھا۔ 2018 میں، میڈیا نے رپورٹ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو 2001 سے مجموعی طور پر 126.79 ارب ڈالرکا نقصان ہوا ہے۔کئی قومی و بین الاقوامی رپورٹس میں اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ بھارت اور افغانستان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیچھے ہیں۔ بھارت نے تو حالیہ دنوں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ اس کی ایجنسیاں پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث ہیں۔ افغانستان ایک طرف پاکستان میں دہشت گردی سے خود کو بری الذمہ قرار دیتا ہے تو دوسری طرف تحریک طالبان پاکستان جیسے دہشت گرد گروپوں کی حمایت کرتا ہے۔ 2013 میں، امریکہ نے ایک افغان قافلے پر حملہ کیا جو لطیف محسود کو کابل لے جا رہا تھا۔ لطیف تحریک طالبان پاکستان کا سینئر کمانڈر تھا۔اس وقت کے افغان صدر کے ترجمان ایمل فیضی نے صحافیوں کو بتایا کہ نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) لطیف کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ لطیف ٹی ٹی پی کو فنڈز فراہم کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔پاکستان کے لئے دہشت گردی ایک بنیادی مسئلہ بن چکی ہے۔اس مسئلے نے امن کا قیام ہی دشوار نہیں بنایا ملک کی ہمہ جہت ترقی کے قدم روک دئیے ہیں۔سیاسی و عسکری قوتوں کے یکسو ، ہم آواز اور متحد ہوئے بنا دہشت گردی سے نمٹنا ممکن نہیں ہو گا۔خصوصا باہم متصادم سیاسی قوتوں کو قومی سلامتی کی خاطر ایک ہونے کی ضرورت ہے۔