میں سلمیٰ اعوان کے سفر نامے پڑھتی ہوں تو مجھے مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سفرنامہ روم ومصر و شام یاد آتا ہے۔ انیسویں صدی کی آخری دہائی میں شبلی نعمانی مصر شام اردن لبنان اور یمن اور ترکیہ کا سفر اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ وہ ان ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کے احوال جان سکیں ۔سلمیٰ اعوان بھی سفر کو تفریح کے طور پر اختیار نہیں کرتیں بلکہ وہ سفر کو اس سرزمین کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے،معلومات لینے اور اپنے ذہن میں ابھرنے والے بہت سے سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لیے اختیار کرتی ہیں۔وہ جس ملک کا سفر اختیار کرتی ہیں اس کی تاریخ وادب ، تہذیب وثقافت ،سیاسی اور سماجی عروج و زوال کا عکس ان کی تحریر کی ہر سطر سے جھلکتا ہے۔ سلمیٰ عوان کے اندر ایک ایسی روح تھی جس نے دانستہ امریکہ اور لندن کے سفر اختیار نہیں کیے۔وہ لکھتی ہیں کہ مجھے ٹامی ،سامی کے ملکوں کے سفر میں کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر انہوں نے امریکہ اسٹریلیا اور لندن کے سفر اختیار کیے ہوتے تو وہاں ان کو بہت سے اردو پڑھنے والے مل جاتے ان کی تحریروں کا فین کلب ان کو وہاں خوش آمدید کہتا ،وہ وہاں اپنے مداحین میں گھری رہتیں، ان کے لیے پرتکلف دعوتیں ہوتیں ،ان کے اعزاز میں شامیں منائی جاتیں ،وہ پروٹوکول میں ترقی یافتہ ملکوں کی سیر گاہوں کی سیریں کرتیں اور پھر واپس آکر ویسا ہی سفر نامہ لکھتیں ،جیسے سفرنامے ان ملکوں کے بارے میں لکھے گئے ہیں۔لیکن یہ تو سلمیٰ اعوان ہیں جنہیں اوبڑ کھابڑ راستوں میں دلچسپی ہے، سیدھے ہموار اور سہولت آمیز راستوں پر جانے سے وہ ہمیشہ گریز کرتی ہیں۔ان کے اندر حالات و واقعات سیاسی اور سماجی معاملات کو جاننے کے لیے ایک جانباز صحافی کی سی جستجو اور لگن موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایسی زمینوں کے سفر اختیار کیے جو جنگ زدہ تھیں جہاں جانے کے بارے میں سوچنا بھی دشوار تھا۔ 2008 میں وہ عراق کا سفر اختیار کرتیں ہیںجب ابھی امریکی فوجی چوکیاں عراق میں جگہ جگہ موجود تھیں،بم دھماکے ہونا ایک معمول تھا عراق میں القاعدہ کے قدم جمے ہوئے تھے۔ بے یقینی کی اس کیفیت میں جب خود اہل عراق پر موت اور سہم کے بادل ہر وقت منڈلائے رہتے تھے۔ سلمی اعوان عراق کا پر خطر سفر اختیار کرتی ہیں۔اس سفر کو اختیار کرنے کے پیچھے انہیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے کبھی وہ عراقی سفیر کے ساتھ باقاعدہ ای میل پر خط و کتابت کرتی نظر آتی ہیں۔ عراقی سفیر جوابی ایس میل میں انہیں بین السطور میںسمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہاں پر ابھی امریکی تسلط ہے آپ کا سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہو سکتا۔اور یہ کہ ابھی حالات ایسے ہیں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کسی نہ کردہ گناہ میں دھر لی جائیں۔ بہرحال سلمی اعوان کس طرح عراق گئیں یہ الگ کہانی ہے۔ وہ بغداد یونیورسٹی کے پروفیسروں سے ملتی ہیں کبھی وہ لائبریریوں میں جاتی ہیں وہاں وہاں کے مقامی ادیبوں کی گفتگو کی محفلوں میں شریک ہوتی ہیں اور تو اور کسی طریقے سے القاعدہ کے لوگوں سے ملنے کا اہتمام بھی کر گزرتی ہیں۔عراق پر امریکی جنگ اور صدام کے جبر کے دور کے خاتمے کے بعد عرا ق کیسے بدل رہا تھا وہاں کے لوگ کیا سوچ رہے ہیں یہ تمام فرسٹ ہینڈ معلوماتِ وہ سفرنامے عراق اشک بار ہیں ہم کا حصہ بناتی ہیں۔ اردو قاری کو نزار قبانی کی نظموں اور ابو نواس کی شاعری سے متعارف کرواتی ہیں۔اسی طرح وہ روس کا سفر اختیار کرتی ہیں۔ انقلاب کے بعد کے روسی سماج، معیشت لوگوں کے طور اطوار رویے کیسے ہیں اس کی تصویر سلمیٰ عوان کے سفر نامے ایک جھلک روس کی میں ملتی ہے۔روس پہ گزرنے والے مختلف سیاسی ادوار کا بھی تذکرہ ان کی تحریروں میں ملتا ہے۔اردو قاری کو روس کے تاریخی شاعر پشکن سے متعارف کراتی ہیں۔اس حوالے سے کشور ناہید نے درست کہا کہ انقلاب کے بعد کے روس کا احوال ہمیں اردو ادب میں صرف اور صرف سلمی اعوان کی تحریروں میں ملتا ہے۔ میں تو پڑھ کے حیران ہو جاتی ہوں کہ ایک لکھاری میں اتنی قابلیت ہے کہ وہ اتنی تہذیبوں کو اپنے اندر جذب کرے ان کی تاریخ ان کے سیاسی ادوار، سماجی عروج وزوال پر نگاہ رکھے اور پھر اس کو اپنے اندر اتنا جذب کرے کہ وہ ان کی بے ساختہ لکھی ہوئی تحریروں کا حصہ بن جائے یہ آسان کام ہرگز نہیں ہے۔تازہ ترین سفرنامہ چین کا ہے۔میں ان کے سفر کی ٹائمنگ پر حیران ہوں کہ اس وقت جب چین دنیا میں معاشی سپر پاور کا کردار ادا کر رہا ہے سلمی اعوان چین کا سفر اختیار کرتی ہیں۔ چین کی حیرت انگیز ترقی کا مشاہدہ کرتی ہیں۔یہاں بھی وہ قاری کو حیرت میں ڈالتی ہیں جب وہ چین کی ادبی سیاسی اور سماجی تاریخ کو بہت خوبی کے ساتھ اپنے سفر نامے کا حصہ بناتی ہیں۔ان کے ہر سفر نامے کی تحریروں میں چھلکتا ان کا گہرا سیاسی ،تاریخی ،تہذیبی اور ادبی شعور نہایت متاثر کن ہے۔ اصغر ندیم سید نے بالکل ٹھیک کہا کہ وہ پولیٹیکلی موٹیویٹڈ رائٹرز ہیں اردو ادب میں پولیٹیکلی موٹیویٹڈ رائٹرز بہت کم ہیں۔ یہاں لوگ زیادہ تخیل کے پرواز پر ہی ادب لکھنے عادی ہیں۔۔سقوط ڈھاکہ کے پس منظر میں لکھا ان کا دل پذیر ناول تنہا اپنی نوعیت کا واحد ناول ہے۔یہ ناول سلمیٰ اعوان کے تخیل کی پرواز نہیں بلکہ متحدہ پاکستان کی تاریخ کے اس تاریک اور حساس موڑ پر وہ خود ڈھاکہ میں ایک طالبہ کہ حیثیت سے موجود تھیں۔انہوں نے جی داری اور بہادری سے ناول لکھا لیکن کئی سال تک کوئی پبلشر کے ناول چھاپنے کو تیار نہ ہوا 1979 میں شائع ہوا کیا یہ کام اس قابل نہیں تھا کہ اسے کوئی بڑا ادبی ایوارڈ دیا جاتا ؟ ان کا ناول’ لہو رنگ فلسطین ‘کئی زمانوں پر پھیلا ہوا ایک بڑے کینوس کا ناول ہے۔جس میں فلسطین کی تاریخ تہذیب مقامی لوگوں کے رویے رسم و رواج سب جھلکتے ہیں۔بلاشبہ سلمی اعوان کا تخلیقی جہان منفرد اور جْداگانہ ہے اور اس کا لینڈسکیپ قاری کو حیران کرتا ہے۔کالم کی تنگنائے میں ان کے پانچ دہائیوں پر پھیلے ہوئے منفرد اور جداگانہ ادبی خدمات پر کہاں لکھا جاسکتا ہے۔بلاشبہ وہ ادب میں سب سے بڑے ایوارڈ کے مستحق ہیں۔فی الوقت تو آثار اکیڈمی کا شکریہ ہم پہ واجب ہے جن کی جوہر شناس نظروں نے سلمیٰ اعوان صاحبہ کو نثر کے پہلے ایوارڈ کے لیے منتخب کیا آثار لائف ٹائم اچیومنٹ ادبی ایوارڈ انہیں 20اپریل کو دیا گیا۔