جیسا کہ قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ سوشل میڈیا پر چند ذہین، تجربہ کار اور صاحبانِ بصیرت صحافیوں نے اپنے اپنے چینلز لانچ کر رکھے ہیں جن میں وہ بین الاقوامی اور قومی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔ جب سے کورونا وائرس کی وجہ سے میں ہائوس اریسٹ ہوا ہوں، میں انہی چینلوں کو سن کر گزر اوقات کر رہا ہوں۔ سب چینل اپنی اپنی بولی بولتے ہیں۔ صرف ایک قدرِ مشترک ہے کہ سبھی آپ کو سب سکرائب کرنے اور ساتھ پڑی ہوئی گھنٹی کو دبانے کی تلقین کرتے ہیں۔ گھنٹی بجانا تو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں لیکن گھنٹی دبانا پہلی بار سنا ہے۔ بہر حال یہ کوئی ٹیکنیکل بات ہے جو مجھ جیسے لوگوں کو سمجھ سے بالاتر ہے۔ اول اول جب میں گھر تک محدود ہوا تو میرا خیال تھا کہ میں وہ کتابیں پڑھوں گا جو میں نے اپنے سیاسی شعور کو بلند کرنے کے لیے سالہا سال سے خرید کر رکھی ہوئی ہیں اور جنہیں پڑھنے کے لیے میں ہمیشہ کسی مناسب وقت کا منتظر رہا۔ اب مس کورونا کی مہربانی سے وہ مناسب وقت تو مل گیا لیکن میں نے محسوس کیا کہ مذکورہ بالا چینلز کو دیکھ کر جتنا سیاسی سماجی اور معاشی شعور حاصل ہوتا ہے، اتنا شعور کتابوں سے نہیں مل سکتا۔ چنانچہ میں نے کتابوں کو بالائے طاق ہی رہنے دیا اور ان بصیرت افروز چینلز کو سننے لگ گیا۔ مجھے ہر چینل سے تھوڑا تھوڑا شعور بالخصوص سیاسی شعور حاصل ہوا ہے اور اب شود دریا،قطرہ قطرہ بہم کے مصداق میرے پاس شعور کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے۔ شعور کے اس ذخیرے میں بڑی Diversity ہے اور یہی اس ذخیرے کا حسن ہے۔ آئیے میں آپ کو اس سیاسی شعور کی ایک جھلک دکھاتا ہوں: یہ جو آج کل ہر طرف کورونا، کورونا کا شور ہے تو یہ بلا وجہ نہیں ہے۔ یہ نہایت خطرناک وبا ہے لیکن ضرر رساں بالکل بھی نہیں ہے۔ عنقریب اس کی وجہ سے لاکھوں جانوں کے تلف ہونے کا خطرہ ہے لیکن اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ لاکھوں جانیں تو ویسے ہی روزانہ تلف ہوتی رہتی ہیں۔ ہمیں سخت حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں اور شام کو افرادِ خانہ کے ہمراہ تفریحی مقامات پر جانا چاہیے۔ پاکستان پر اللہ کی خاص رحمت ہے۔ جوں جوں بندے مریں گے ہماری غیر ملکی امداد میں اسی تناسب سے اضافہ ہوتا رہے گا اور معاشی صورتِ حال بہت بہتر ہو جائے گی اور مہنگائی کی وجہ سے جو غریبوں کا کچومر نکلتا رہتا ہے اس سے گھبرانا نہیں چاہیے اس لیے کہ کچومر دراصل ایک خطرناک اور غلیظ مادہ ہوتا ہے جس کا بدن سے نکل جانا اچھی بات ہے۔ عنقریب صنعتی ترقی کا دور شروع ہو جائے گا۔ کورونا کی مہربانی سے فرنیچر کی صنعت ترقی کر رہی ہے۔ تابوت دھڑا دھڑ بن رہے ہیں اور لوگوں کو روز گار مل رہا ہے۔ تابوت زندہ لوگوں کے لیے بھی اتنا ہی مفید ہے جتنا مرے ہوئوں کے لیے۔ پاکستان کا سیاسی منظر نامہ دلکش بھی ہے اور دل شکن بھی ہے۔ عمران خان کی حکومت یوں تو چند دنوں کی مہمان ہے لیکن جب تک فوج عمران خان کے پیچھے ہے۔ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ آج کل کورونا کی وجہ سے چھ فٹ کے فاصلے سے جنرل باجوہ خان صاحب پر Kissپھینک دیتے ہیں۔ خان صاحب خوش ہو جاتے ہیں لیکن ڈر بھی جاتے ہیں کہ کہیں جنرل صاحب اقتدار سے باہر نہ پھینک دیں۔ خان صاحب بڑی تیزی سے عالمی لیڈر کا مقام حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ ملک میں ان کی نالائقی کی وجہ سے افراتفری ہے۔ ان کی کابینہ میں چند لوگ نہایت خطرناک ہیں۔ ان کی دن رات کوششوں سے پاکستان کے حالات بہت بہتر ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے خزانے میں تشویشناک حد تک کمی ہو گئی ہے۔ روزانہ کروڑوں ڈالروں کا نقصان ہو رہا ہے۔ خطرہ ہے ملک کا بھٹہ ہی نہ بیٹھ جائے۔ سعودی عرب نے پاکستان پر ڈالروں کی بارش کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت منفی بیس تک پہنچ گئی ہے۔ کوئی مفت پٹرول لینے کو تیار نہیں ہے۔ خان صاحب نے جنہیں مانگنے کی عادت ہے، امریکہ سے کہا ہے کہ تیل کو سمندر میں بہانے کے بجائے ہمیں دے دیا جائے۔ وہ جو امید پیدا ہوئی تھی کہ حکومت پٹرول کی قیمت میں کمی کر دے گی، خیال خام ثابت ہوئی ہے۔ آج کل کورونا کی وجہ سے پٹرول کی کھپت کم ہے لیکن کورونا کی رخصتی کے بعد پٹرول مزید مہنگا ہو جائے گا۔ خان صاحب کی ناتجربہ کاری سے ملک کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ قدرت پاکستان کی مدد کر رہی ہے۔ عنقریب تیل اور گیس کے عظیم ذخیرے دریافت ہونے جا رہے ہیں۔ کچھ تو دریافت ہو بھی چکے ہیں، بس کورونا کے جانے کا انتظار ہے۔ اگر قوم زندہ بچ رہی تو اس کا معیارِ زندگی آسمان سے باتیں کرنے لگے گا۔ میاں شہباز شریف عنقریب پاکستان کے وزیر اعظم ہوں گے، ان کی صحت فی الحال کافی خراب ہے۔ کینسر زور پکڑ رہا ہے لیکن وزیر اعظم کا حلف اٹھاتے ہی وہ جھارا پہلوان بن جائیں گے جس طرح نواز شریف لندن بھیجتے ہی گاما پہلوان بن گئے ہیں۔ عثمان بزدار(بکریاں رکھنے والا) روز بروز طاقت پکڑتا جا رہا ہے۔ اب تو اپوزیشن بھی قائل نظر آتی ہے کہ بزدار، بہادر انسان ہے، بزدل نہیں ہے۔ نون لیگ کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ تحریک انصاف بھی ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہے۔ پیپلزپارٹی کا تو ویسے ہی بیڑہ غرق ہو چکا ہے۔ فضل الرحمان قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ بلاول کو تو اس کا باپ بھی سیریس نہیں لیتا۔ عمران خان کے خلاف ایک متحدہ محاذ بن رہا ہے۔ عنقریب موجودہ حکومت ختم ہو سکتی ہے لیکن فی الحال انتہائی مضبوط ہے خطرے کی کوئی بات نہیں۔ خان صاحب لڑنا جانتے ہیں۔ ٹرمپ پاکستان پر بہت مہربان ہو رہا ہے، جوں جوں امریکہ میں لوگ مر رہے ہیں، ٹرمپ پاکستان پر مرے جا رہا ہے۔ ٹرمپ ہندوستان کے وزیر اعظم سے ناراض ہے، تا ہم اس نے ہندوستان سے کئی ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ کیا ہے۔ دراصل امریکہ اس معاہدے کی آڑ میں ہندوستان کا دھڑن تختہ کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ عنقریب پاکستان، چین، ایران، ترکی اور افغانستان کا فوجی بلاک بن جائے گا جو امریکہ کی تباہی کا باعث بن جائے گا۔ ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہونے جا رہا ہے، قیامت قریب آ رہی ہے۔ ٹرمپ امریکہ کے بگڑتے ہوئے حالات سے گھبرا کر بھاگ کر اسلام آباد آجائے گا۔ اسلام آباد اسے قبول کرے گا اور وہ اسلام قبول کر لے گا۔ ٹرمپ کا اسلامی نام ٹرمپ الدین خان ہو گا۔ اس کی شکل پٹھانوں سے ملتی ہے۔ اس کا شجرۂ نصب بھی چنگیز خان سے ملتا ہے۔ عمران خان اسمبلیاں توڑنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، شہباز شریف لندن بھاگنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ نون لیگ کے سرکردہ رہنما شہباز شریف کے بھاگ جانے کے سخت خلاف ہیں لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ میاں صاحب، حمزہ شہباز کے ساتھ چپکے سے ملک چھوڑ جائیں گے۔ چیف جسٹس حکومت کی کارکردگی سے بڑے مایوس ہیں لیکن جب سے عمران خان نے بیان دیا ہے کہ ہم چیف جسٹس اور عدالتوں کا احترام کرتے ہیں، وہ خوش ہو گئے ہیں اور حکومت کی کارکردگی پر مطمئن ہیں۔ لفافہ صحافیوں کا گٹھ جوڑ عمران کو گھر بھیج سکتا ہے۔ عمران خان ان صحافیوں کو گھر بھیج سکتے ہیں، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔