وزیراعظم کی کراچی میں کاروباری شخصیات سے ملاقات کے دوران معروف کاروباری شخصیت عارف حبیب نے وزیر اعظم شہباز شریف کو تجویز دی ہے کہ آپ معاشی استحکام کیلئے اڈیالہ جیل کے باسیوں سے بھی ہاتھ ملا لیں۔ سیاسی استحکام کسی بھی ملک میں معاشی و اقتصادی استحکام کیلئے ازبس ضروری ہے لیکن وطن عزیز میں سیاسی استحکام قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل کسی نہ کسی شکل میں بحرانی کیفیت کا شکار ہے، اس کی بنیادی وجہ سیاسی لیول پلیئنگ فیلڈ کا فقدان ہے جسے ہماری سیاسی جماعتوں نے 8 فروری کے انتخابات سے پہلے تماشا بنا دیا ہے۔ درحقیقت سیاست میں مخصوص انداز کی مداخلت نے مادر وطن میں جمہوریت کو حقیقی طور پر پنپنے نہیں دیا، سو ہمارے ہاں محض حقیقی جمہوریت کے نعرے ہی بلند ہوتے رہے ہیں لیکن جمہوریت کا پودا پرورش سے محروم ہے ۔عام آدمی کیلئے متواتر بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب جینا محال ہوچکا ہے، اس وقت بھی جبکہ موجودہ حکومت معشیت کی ترقی کے دعووں میں مصروف ہے عام آدمی بدترین مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے اور اس لیے گزر بسر انتہائی مشکل یا نا ممکن ہوچکا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کو اپنی اول و آخر کامیابی قرار دینے والی حکومت کے دور میں ہر 15 دنوں بعد بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جائزہ لینے کی روش اور ان کی قیمتوں میں اضافوں نے قوت خرید کی سکت پر تشویشناک سوالات کو لا کھڑا کیا ہے چونکہ مارکیٹ میں روزگار کے مواقعے سکڑ کر رہگئے ہیںاس لئے تنخواہوں میں اضافے کی طلب کے باوجود اضافہ نہیں ہو پا رہا، ہمارے پالیسی سازوں کو ان حقائق کو تعصب اور ذاتی مفادات کی عینک اتار کر دیکھنا ہوگا، گزشتہ روز ن لیگ کے ناراض رہنما دانیال عزیز نے انکشاف کیا کہ افغانستان میں مہنگائی کی شرح منفی 8 فیصد جبکہ پاکستان میں 30 فیصد ہے، 2 سال قبل دیوالیہ ہو جانے والے سری لنکا میں بھی مہنگائی کی شرح عشاریہ 9 فیصد تک گر چکی ہے، توانائی کے شعبہ کے مسائل کی جانب عرصہ دراز ہوا کسی حکومت کی کوئی پالیسی عملی بنیادوں پر کارگر ثابت نہیں ہوسکی اور اس وقت مالیاتی دباؤ توانائی ذرائع کی قیمتوں کی صورت میں عوام، صنعت، تجارت اور زراعت کے شعبہ جات پر قہر ڈھا رہا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک وغیرہ ماضی قریب میں متعدد مرتبہ حکومت کو اپنے اقتصادی ڈھانچے پر نظر ثانی کا کہہ چکے ہیں کہ ہمارے اکنامک سٹرکچر کے تحت اشرافیہ کا پیٹ پالنے کی خاطر معشیت کو چلانے کا سارا بوجھ عوام پرڈالا جا رہا ہے۔ حکومتی سطح پر اعتراف ہوتا ہے کہ 590 ارب روپے کی بجلی چوری کی جاتی ہے، 590 ارب کا مطلب 18 روپے 32 پیسے ہر پاکستانی کے بل میں کم ہونے تھے، اس طرح کی بیشتر مثالیں دی جاسکتی ہیں جس کے تحت مہنگائی براہ راست عام آدمی اور اس کے روزگار سے متعلقہ شعبہ جات کو متاثرکرتی ہے، یہ سلسلہ آخر کتنی دیر چل سکے گا؟ تاہم ایشیائی ترقیاتی بینک اپنی سالانہ ایشین ڈیولپمنٹ آوٹ لک رپورٹ 2024 میں پاکستان کو ایشیاء کا سب سے مہنگا ملک قرار دے چکا ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے گو کہا ہے کہ پاکستان کی آئندہ مالی سال کی شرح نمو 2.8 فیصد ہونے کا اندازہ ہے، ملک میں مہنگائی میں آئندہ مالی سال 2025 ء میں کمی آنے کی امید ہے، مہنگائی کی شرح 15 فیصد تک آجائے گی، رپورٹ میں کہا گیا کہ ایشیائی ممالک میں مقامی طلب و ترقی، برآمدات اور سیاحت بڑھنے سے خطے کی شرح نمو 4.9 فیصد رہنے کا اندازہ ہے۔ خطے میں مہنگائی کی لہر میں کمی آئے گی لیکن رپورٹ میں جن نکات کے حوالے سے چیلنجز کا تذکرہ کیا گیا ہے ان پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، جیسے اے ڈی بی کی رپورٹ میں سیاسی عدم استحکام کو معاشی بحالی اور اصلاحات کیلئے اہم چیلنج قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مثبت نمو کی طرف واپسی زراعت اور صنعت دونوں میں بحالی کے علاوہ نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں بحالی سے آئے گی جو اصلاحاتی اقدامات پر پیش رفت اور ایک نئی اور زیادہ مستحکم حکومت میں منتقلی سے منسلک ہے۔ حکومت کو ہوش مندی سے کام لینا ہوگا، گزشتہ دنوں ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے سروے میں 18 سے 34 برس کے 70 فیصد نوجوانوں نے مہنگائی کو ملک کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیا، سروے میں شامل ہر تین میں سے دو مرد جبکہ ہر چار میں سے تین خواتین نے کہا کہ وہ مہنگائی کو ملک کا سب بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ شہری علاقوں میں 68 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 72 فیصد نوجوان مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ورلڈ بینک نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح گزشتہ 50 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ عالمی بینک نے کہا کہ پاکستان میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں مہنگائی 1974 کے بعد سب سے زیادہ رہی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کو مہنگائی بڑھنے کی بڑی وجہ قرار دیا گیا۔ وطن عزیز میں ایک سال کے دوران گیس کی قیمتوں میں 520 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ اس دوران بجلی ٹیرف میں 70 فیصد اضافہ ہوا، سالانہ بنیاد پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث ٹرانسپورٹ کرائے 41 فیصد بڑھ گئے۔ لیکن افسوس صد افسوس حکومت تاحال آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کے علاؤہ کوئی معاشی و اقتصادی پالیسی سامنے لانے میں ناکام ہے حالانکہ آئی ایم ایف کے تجویز کردہ اقدامات پر عمل پیرا ہونے سے پاکستانی معیشت کے اندر بنیادی انفراسٹرکچر کے مسائل کو قطعی حل نہیں کیا جا سکتا اور یہی وجہ ہے کہ میکرو اکنامک صورتِ حال بگڑتی چلی جا رہی ہے، ایسے میں سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ناگزیر ہے جو جمہوریت کے پھلے پھولے بغیر ممکن نہیں جس طرح موجودہ حکومت قائم ہوئی، ایسے حکمرانوں سے کسی جمہوری رویے کی توقع کی جاسکتی ہے؟۔