توشہ خانہ کیس میں ملک کے مقبول ترین لیڈر عمران خان کو پلان کے مطابق نااہل کر دیا گیا‘ملک خانہ جنگی کی جانب دھکیل کر ملک دشمن قوتیں خوشیاں منا رہی ہیں۔ پی ڈی ایم کی گیارہ جماعتیں جس ایجنڈے کے تحت ملک پر مسلط کی گئیں اور جو گیم چینجرز تھے‘پاکستانی عوام انھیں معاف کر بھی دے‘تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ملک کی موجودہ تباہی کے ذمہ دار وہ عناصر بھی ہیں جنھوں نے اپنے مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دی۔آج ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ عمران خان غدار ہے‘دہشت گرد ہے‘چور ہے اور کرپٹ بھی،اندازہ کریں یہ بات کر کون رہا ہے؟جو خود سیاسی یتیم بن کر ہمیشہ فائدے اٹھاتے رہے‘جنھوں نے ہر دور میں نہ صرف اداروں کو یرغمال بنایا بلکہ سیاسی شطرنج کے ذریعے ہمیشہ باریاں لیتے رہے۔عجب یہ نہیں کہ عمران خان کو غدار اور دہشت گرد یا چور اور کرپٹ کہا جا رہا ہے‘حیرت تو اس بات پر ہے کہ کہنے والوں میں شہباز شریف اور مریم نواز شامل ہیں‘الزام لگانے میں فضل الرحمن اور ذرداری پیش پیش ہیں‘عمران کو دہشت گردہ رانا ثناء اللہ کہ رہا ہے‘خواجگان بھی عمران خان کو کرپٹ کہتے ہیں۔آپ ظلم کی انتہا دیکھیں کی جن کی ساری سیاسی زندگی مافیا کی سرپرستی کرتے گزری‘وہ لوگ بھی آج اس بات پر شدید غصے میں ہیں کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے گھڑی چوری کی‘جس خاتون کی ’’لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں ‘‘تھی‘جو عدالت میں جھوٹے خط اور بیان حلفی جمع کرواتی رہی‘وہ بھی عمران خان پر الزام لگا رہی ہے کہ عمران خان وزیر اعظم ہائوس سے پانی کی بوتلیں چوری کر کے لیا گیا۔ عمران کے علاوہ پاکستان کے تین سابق حکمرانوںپر توشہ خانہ ریفرینس چل رے ہیں مگر سزا صرف عمران خان کو کیوں؟نیب وہ ریفرینس کیسے بھول گیا جس میں نواز شریف اور ذرداری پر قیمتی گاڑیاں خریدنے کا الزام تھا۔نیب ریفرینس کے مطابق یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور میں قوانین میں ترمیم کر کے آصف ذرداری اور نواز شریف کوتوشہ خانہ سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی تھی‘اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری تک جاری کر رکھے ہیں‘ان پر الزام ہے کہ انھوں نے توشہ خانہ سے گاڑیاں غیر قانونی طریقے سے خریدیں تھی۔نیب آصف ذرداری پر بھی ریفرینس موجود ہے‘آصف ذرداری نے بطور صدر متحدہ عرب امارات اور لیبیا سے تحفے میں ملنے والی بی ایم ڈبلیو گاڑیاںتوشہ خانہ سے خریدیں‘نیب کا دعویٰ ہے کہ ذرداری نے ان قیمتی گاڑیوں کی قیمت منی لانڈرنگ والے جعلی اکائونٹس سے ادا کی ہے‘یہ فیصلہ بھی شاید کبھی نہ سنایا جائے۔ ترکی کی خاتون اول کا وہ قیمتی ہار جو انھوں نے 2010ء میں سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے دیا تھا‘وہ کیسے چوری ہوا اور کیسے واپس آیا‘یہ بات بھی قوم سے ڈھکی چھپی نہیں ہے لہٰذا چوری کا الزام لگانے والوں کے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے ۔ تحریک انساف کا مطالبہ بجا ہے کہ آپ توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کریں تاکہ عوام بھی ان درجنوں چہروں کو دیکھے جو صبح شام حب الوطنی کا چورن بیچتے ہیں مگر توشہ خانہ سے قانونی و غیر قانون طریقوں سے فیض یاب ہوتے رہے۔ عمران خان کے دور سے پہلے توشہ خانہ سے پندرہ فیصد کی ادائیگی سے تحفے اٹھائے جاتے تھے‘تحریک انصاف کے دور حکومت میں یہ مالیت پچاس فیصد کی گئی ‘اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کیس بنتا کس پر ہے؟لوٹ مار کس نے کی اور قومی خزانے کو ’’ٹیکہ‘‘کس نے لگایا ۔ بطور ایک پاکستانی راقم کو اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ توشہ خانہ کیس پر فیصلہ عمران خان کے خلاف کیوںآیا‘اعتراض اس بات پر ہے کہ توشہ خانہ سے فیض یاب ہونے والوں کو فہرست سامنے کیوں نہیں لائی جا رہی‘نیب میں موجود دیگر ریفرینسز کا فیصلہ کیوں نہیں سنایا جا رہا حالانکہ یہ ریفرینسزعمران خان سے پہلے کے ہیں۔ پی ڈی ایم کی گیارہ جماعتیں جیسے ملک پر مسلط کی گئیں‘این آر او ٹو کے ذریعے ان کے کیسز معاف کروائے گئے‘انھیں مقدمات سے بری ’کروایا‘ گیا‘ان کے لیے راستے بنائے گئے اور انھیں اقتدار سونپا گیا‘یہ کہانی نوشتہ دیوار ہے۔مجھے یہ دیکھ کر شدید حیرانی ہوتی ہے کہ پی ڈی ایم کا گروہ جب ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر قوم کو یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ ہم سب قوم کے ساتھ مخلص ہیں‘ہم سب محب وطن ہیں اور عمران خان چور‘ کرپٹ اور غدار ہے۔ضمنی الیکشن کے میدان میں ان گیارہ جماعتوں کا جو عبرت ناک حشر ہوا‘انھیں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے تھا مگر حیرت ہے یہ لوگ اب بھی میڈیا پر اپنی حب الوطنی کا شور ڈال رہے ہیں اور عمران خان کے خلاف جھوٹا اور من گھڑت بیانیہ متعارف کروانے میں مصروف ہیں۔ اب آگے کیام ہونے جا رہا ہے۔عمران خانہ توشہ خانہ کیس میں بری ہو جائیں گے‘حکومت پارلیمنٹ کی مدت بڑھانے کے لیے ہاتھ پائوں مارے گی کیوں کہ موجودہ صورت حال میں پی ڈی ایم کی گیارہ جماعتیں جنرل الیکشن کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔نومبر یا دسمبر تک پی ڈی ایم ٹوٹ جائے گی‘اگلے جنرل الیکشن میں یہ گیارہ پارٹیاں پھر ایک دوسرے کے خلاف بیانیہ بنائیں گی‘شہباز شریف دوبارہ ’’زرداری کو لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے‘‘ کا اعلان کریں گے‘زرداری بھی قوم سے وعدہ کریں گے کہ ’’اگر میاں صاحب کو میں نے معاف کر دیا تو مجھے اللہ بھی معاف نہیں کرے گا‘‘،فضل الرحمن کی اکیلے کوئی حیثیت نہیں‘وہ ہمیشہ کی طرح کسی ایک فریق کی حمایت چاہے گا تاکہ دو چار سیٹیں پا سکے،جماعت اسلامی کا ووٹ بینک کم ہے‘یہاں تک کہ جماعت کے اپنے اراکین بھی جماعت کو ووٹ نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ فی الحال جماعت کے بارے کچھ نہیں کہ سکتے کہ ان کا جھکائو کس طرف ہوگا یا ان کاگلا اتحاد کس ’’محب وطن‘‘پارٹی کے ساتھ ہوگا۔آرمی چیف نے بھی ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ فوج ’’اب‘‘سیاست میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گی۔اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو خوشی کی بات ہے‘اداروں کو وہی کام کرنے چاہیں جس کے لیے وہ بنے ہیں۔کتنا اچھا ہوا کہ تمام ریاستی ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کریں اور سیاست دانوں کو سیاست کرنے دیں‘ریاستی ادارے ہر اس شخس کا احتساب کریں جس نے اداروں کو یرغمال بنایا‘جس نے قوم کو پیسہ لوٹا اور قومی اثاثوں کو گروی رکھا۔اگر ادارے اس انداز میں کام کرنے لگ جائیں تو یقین جانیں ترقی ناگزیر ہو جائے گی مگر افسوس ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔