کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق ہے مکررّ لبِ سابق ہے صلا میرے بعد ’’پانامہ لیکس‘‘ میں انکشافات کے بعد جرائم کی سزا سے بچ نکلنے کے درجن بھر مواقع اور طریقے دستیاب تھے لیکن جب اللہ کی پکڑ ہو تو وہ آدمی کی ’’مت‘‘ مار دیتا ہے، صرف مجرم کی ہی نہیں صلاح کاروں اور قانونی مشیروں کی بھی‘ چوری کے مجنوں جو بھلے دنوں کی نوازشات سے لطف اندوز ہوتے رہے تھے، انہیں بھی ڈھب کی نہیں سوجھی، وہ پیٹھ ٹھونکتے رہے‘ وسیع دسترخواں کے خوشہ چیں دانشور اخبارات کے کالم اور ٹیلی ویژن کے تجزیات میں ’’ساون کے اندھے کی طرح‘‘ ہرا‘ ہرا‘ سجھاتے رہے۔ جب پانی سر سے گزرا ‘ نااہل ہو کر گھر لوٹنے کو آئے تو کہا گیا‘ میاں صاحب اقتدار میں رہ کر دوستوں کے لئے مہرباں حریفوں کے لئے بے ضررّ تھے ،اقتدار سے ہٹے تو خطرناک ہو جائیں گے‘ نااہل ہو کر اقتدار سے الگ ہو چکے تھے، کاری ضرب لگی تھی، بحال ہونے کے لئے انہیں طویل آرام کی ضرورت تھی اور آنے والے دنوں کے خطرات سے نمٹنے کے لئے ٹھنڈے دل سے غور و فکر کی مگر ہمارے ایک بلند آہنگ مہربان نے اپنے مجبور کر دینے والے مشوروں سے گھیر گھار کے ’’شیر شاہ سوری‘‘ کی بنائی شاہراہ پر چڑھا دیا‘ کہا میاں صاحب اسلام آباد سے لاہور کو نکلیں گے تو راولپنڈی سے حنیف عباسی ’’چھ لاکھ‘‘ کمک فراہم کریں گے۔جی ٹی روڈ گوجر خاں سے قافلے ملنا شروع ہونگے جہلم‘ وزیر آباد‘ گوجرانوالہ پھر اطراف سے بھی سڑکیں آن ملتی ہیں، سیالکوٹ‘ شیخو پورہ‘ فیصل آباد’’چھ لاکھ‘‘ حنیف عباسیوں کا آغاز ’’ڈیڑھ دو کروڑ‘‘ نون لیگی شیروں تک پہنچ جائے گا، ابھی آپ راوی کا پل بھی عبور نہیں کرو گے کہ حکومت ختم ہو چکی ہو گی‘‘ عقل کے اندھے دانشور یہ بھول گئے، بھائی کون سی حکومت؟ پنجاب میں اپنے ہی چھوٹے بھائی شہباز شریف کی یا اسلام آباد میں اپنی ہی نامزد حکومت شاہد خاقان کی‘ صلاح کاروں کی صلاح کاری سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے تاکہ تاریخ میں روشن رہے‘ بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی‘ ان کی نااہلی پر ابہام کا پردہ تھا کہ نااہلی پانچ برس کے لئے ہو گی یا اس ٹرم کے لئے‘ پردہ پڑا رہنے دیتے‘ مگر جلد باز دانشوروں کو صبر کہاں‘ کچوے دے دے کر پھر عدالت میں بھیج دیا، ریویو کے لئے وہاں سے خوشخبری ملی کہ نااہلی دائمی ہو گی حتیٰ کہ موت کے بعد بھی نام کے ساتھ نتھی کر دی گئی‘ اب بھی دانشوروں نے سکھ کا سانس نہیں لیا‘ کہاں میاں صاحب کی بے قاعدگیوں کے خلاف اگر انہیں ’’سزا سنائی گئی تو پھر ان کی خطرناکی بے حد و کنار ہو جائے گی‘ چھتیس لاکھ(36) لوگ جیل کی دیواریں توڑ کر میاں صاحب کو کندھوں پر اٹھا کر ایوان وزیر اعظم لے آئیں گے، اس انقلاب عظیم کے بعد تاقیامت کوئی دوسرا وزیر اعظم ہائوس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکے گا‘ آج تک یہ سوچ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ چھتیس لاکھ انقلابیوں کی گنتی کہاں سے آئی؟ چشمِ فلک نے دیکھا کہ جیل سے رہا کروانے کے لئے تو کوئی نہیں آیا‘ ہاں البتہ یہ ہوا کہ جب میاں صاحب لندن سے پاکستان آئے تو دو اڑھائی ہزار پرجوش نون لیگی جلوس میاں صاحب کو جیل کی کوٹھری تک چھوڑنے کے لئے ہمراہ آیا اور موصوف کو منزلِ مقصود تک پہنچا کر ہنستا کھیلتا گھروں کو لوٹ گیا‘ اس میں نکل بھاگنے کے لئے میاں صاحب کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑنے بالآخر ’’شیریں مزاری‘‘ کے آنسوئوں کے طفیل چار ہفتوں کی رہائی ملی وہ دن اور آج کا دن بوڑھے شیر نے پاکستان کی طرف آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھا حالانکہ پورے پاکستان میں ان کے بھائی کی حکومت کا طوطی بولتا ہے‘ میاں صاحب کا کہنا ہے کہ بھلے پاکستان میں بھائی کا طوطی بولتا ہے مگر طوطی ہی تو جانے کب بولنا بند کر دے! دانشوروں کے مضامین‘ تجزیہ کاروں کے تجزیے‘ خوشہ چینوں کا واویلا‘ سارے کا سارا ایسا غلط بھی نہیں تھا، ہاں تھوڑی دیر سے ان کی پیش گوئی درست ثابت ہو گئی‘ مگر 2022ء اپریل میں ’’عمران خاں کے لئے‘‘ وہ اقتدار میں تھا تو حریفوں کے لئے بے ضرر رہا‘ غریبوں کا پالن ہار‘ شہریوں کے لئے مہربان‘ قانون کا پابند‘ کوئی اپنی بداعمالیوں کا شکار ہوا تھا‘کپتان کی خوش اعمالیاں بداعمالوں کے خواب ٹوٹنے لگے ’’کوئی مرد افگن‘‘ تھا نہیں سامنے آکے للکارتا، دیس بدیس کے سازشی ماہرین اکٹھے کئے‘ سازش بنی‘ داد و دہش موتی لنڈھائے گئے‘ خزانے کے منہ کھلے‘ عدالتوں کے در آدھی رات کو چوپٹ تھے‘ قیدیوں کی گاڑیاں ‘ سپیکر کے ہاتھ بندھے‘ انتخابات کے اعلان کو غیر موثر بنایا ’’آدھی رات کو کوئی اکیلا‘‘ ایک ہاتھ سے لکھا روزنامچہ اٹھا کے نکلا‘ پیچھے مڑ کے ان خبرکاروں سے مخاطب ہوا، خبر کار جو بھولے بھٹکے‘ ادھر آ نکلے تھے کہ شاید ’’آخرِ شب دید کے قابل ہو بسمل کی تڑپ‘‘ مگر نیم بسمل تھانہ وہ بے جان نکلا۔اس نے کہا کوئی رہ تو نہیں گیا؟ جس نے میرے خلاف کارِ خیر میں حصہ نہیں لیا؟ جس نے سب کچھ ہارنے کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری‘ کیا واقعی اس نے سب کچھ ہار دیا؟ نہیں چند مہینے باقی رہ جانے والا اقتدار ہارا، جس نے اس کی اُجلی تصویر کو دھندلا دیا تھا لیکن اس چھوٹی سی عارضی ہارنے کروڑوں دل جیت لئے اور ابدی زندگی کے لئے زاہدان شب زندہ داران اور معصوم بچوں کی آنسوئوں سے دھلی دعائیں جیت لیں۔کوئی دن نہیں جاتا، جب حرمِ کعبہ اور حرم نبوی میں اس کے لئے ہاتھ اٹھا کر گِڑ گڑاتے ہوئے عرض نہ گزاری جائے، تین تین بار وزیر اعظم رہنے والوں کے مقابل ’’وہ‘‘ سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے بھی زیادہ معروف‘ مشہور اور ہر دلعزیز تھا‘ جو کچھ خدمات سیاستدان اور ڈکٹیٹر پاکستان کے لئے انجام دے سکے ان کے مقابل سیاست میں آنے سے بہت پہلے اس نے قوم کو دیا‘خوشیاں بھی فخر بھی‘ عیش و طرب‘ شان و شوکت کی زندگی گزارنے والے ’’ابو قاسم‘‘ کو جناح کی طرح آزمائشوں سے آزمایاگیا‘ خودار‘ شرمیلے بلکہ کسی حد تک متکبر شخص نے جو کچھ عمر بھر پایا، شوکت خانم ٹرسٹ ہسپتال کی نذر کر دیا تاکہ قوم کے غریب‘ نادار‘ بے بس پاکستانی کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف لڑ سکیں‘ جمع پونجی خرچ ہو گئی تو اس مردِ خودار نے جو سکول کی فیس جو جیب خرچ کے لئے باپ سے کچھ طلب کرنے میں شرمایا کرتا تھا، اسے اپنے دوست‘ احباب ‘ اور اجنبیوں کے سامنے ہاتھ پھیلا دیے اور ہسپتال بناتے رہا‘ ایک نہیں تین تین‘ محبت کی شادی‘ حسین و جمیل اور خوش خصال بیوی‘ دو خوبصورت‘ خوش خصال ماہ صفت بیٹے دیے اور پاکستان کے لئے بچوں کی جدائی اور محبت سے دائمی رخصت دے کر آزمایا گیا‘26برس تک سیاست میں ناکام مفت سے آزمایا گیا‘ وہ ثابت قدم تھا‘ حوصلہ نہیں ہارا ‘ امید کا دامن نہیں چھوڑا‘ اقتدار دے کر آزمایا گیا سرخرو ہوا‘ اقتدار چھین کر آزمایا گیا‘ اس کے ماتھے پر شکن نہ تھی‘ اقتدار جانے پر بھی اس کا ایک لمحہ بے چین ہوا نہ بے خواب گزرا‘ موت کی دھمکی‘ قید کی مصیبت‘ قتل کی واردات سے آزمایا گیا‘ اس جیسا کس کو ثابت قدم پایا نہ جنگ جو بہادر‘ یقین ہونے لگتا ہے کہ شاید میاں محمد بخش نے اسی کے لئے کہا ہو کہ :جتن جتن ہر کوئی کھڈے‘ ہارن کھیڈ فقیرا جتن دا مُل کوڈی پیندا ہارن دا مُل ہیرا بقول اقبال: تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں سنا ہے‘ فاتح جنگ جو کے سامنے کچھ شرائط رکھی گئی ہیں‘ شرائط؟ جناب جو پہلے ہی جنگ جیت چکا ہو، اس کے سامنے شرائط نہیں‘ درخواست گزاری جاتی ہے‘ عاجزی کے ساتھ‘ گردن جھکائے، آنکھ نیچی رکھ کر‘ وہ شرائط کیوں مانے گا؟ درخواست پر غور کرے نہ کرے، اس کی مرضی، یہ الگ بات ایک وسیع القلب بہادر کی طرح وہ سب حریفوں کو جان کی امان پہلے ہی دے چکا ہے مگر حریف جان کی امان ملنے پر اب اصرار کرتے ہیں کہ ’’ان کی لوٹ مار کے مال پر بھی ان کا حق ملکیت مان لیا جائے‘ اس نے اپنا مال بخش دیا لیکن خلقت کا مال بخش دینے کا اختیار اس کے پاس ہے نہیں‘ اب وہ بھی مانگتے ہو جس پر اسے کوئی اختیار نہیں!