ہارون الرشید صاحب ہماری قومی صحافت کے نامور سپوت ہیں جو اس دشت نوردی میں پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزار چکے ہیں۔ جہدِ مسلسل کی اس داستان کو اگر کبھی خود نوشت یعنی ''آپ بیتی'' کا شرف مل سکا تو یہ تصنیف علم و ادب کے حلقوں، خصوصا'' نئی نسل کیلئے گوہر گرانمایہ ثابت ہو گی۔ ہماری خوش قسمتی ہے گزشتہ ہفتے کے دوران ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ہوا یوں کہ برادرم غلام مصطفی خان میرانی سے موبائل پر بات کی تو معلوم ہوا کہ سفر میں ہیں اور ہارون صاحب ان کے ہم سفر ہیں اور تونسہ شریف تشریف لا رہے ہیں۔ سنا تو بہت خوشی ہوئی اے امدنت باعثِ آبادیء ما تونسہ شریف جو حضرت خواجہ سلیمان ؒ تونسوی کی نگری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شہر تَس یا تاس (بمعنی پیاس) سے تونسہ بنا چونکہ آج سے پانچ سو سال قبل تونسہ ایک بنجر اور ویران سا ریت کا ٹیلہ ہوا کرتا تھا جہاں پر پانی کی شدید قلت تھی۔ صرف سنگھڑ رود کوہی (پہاڑی نالہ) سے یہاں پر کچھ رونق پیدا ہو جاتی تھی۔ طویل عرصہ تک اس شہر کا نام سنگھڑ بھی رہا۔ جب حضرت خواجہ سلیمان نے کوہ سلیمان میں واقع بستی گجوجی کو خیر باد کہہ کر ان ریت کے ٹیلوں پرآکر اپنا مسکن بنایا تو پھر اس قصبہ کا نام تونسہ شریف پڑ گیا۔ حضرت خواجہ سلیمان تونسویؒ نے اپنے علمی اور روحانی تبحر سے اس بنجر علاقے کو ایسا شاداب کیا کہ برصغیر میں یہ شہر آج یونانِ صغیر کی شہرت رکھتا ہے۔ تونسہ شریف سے شمال کی طرف 25 کلومیٹر کے فاصلہ پر میرانی بلوچوں کے متعدد قدیم قصبے آباد ہیں۔ ان میں ایک بڑی بستی بولانی کے نام سے مشہور ہے جو میرانی قوم کی ایک قابل ذکر آبادی کا مسکن ہے۔ قارئین کی دلچسپی اور معلومات کیلئے عرض کرتا چلوں کہ ڈیرہ غازی خان شہر کا بانی نواب غازی خان میرانی تھا۔ یہ شہر اپنے بانی حکمران کے نام سے موسوم اور مشہور ہوا۔ تب اس ریاست کے حکمران نواب حاجی خان میرانی نے 1476ء میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے ڈیرہ غازیخان کی بنیاد اپنے اکلوتے بیٹے غازی خان کے نام پر رکھی تھی۔ نواب حاجی خان 1498 میں جب انتقال کر گئے تو اس کے بیٹے نواب غازی خان میرانی نے قدیم ڈیرہ غازیخان سے 23 کلومیٹر مغربی سمت، بستی چورہٹہ کے قریب اپنے عظیم والد کے لیے ایک تاریخی مقبرہ تعمیر کرایا جہاں پر آج بھی نواب حاجی خان میرانی اپنے دیگر بیٹوں کے ساتھ آسودہ خاک ہیں۔ یہ مقبرہ فن تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔ اس علاقے میں میرانی خاندان نے تین سو سال حکومت کی۔ اس کے بعد جب احمد شاہ ابدالی نے ڈیرہ غازیخان اور ملتان پر قبضہ کیا تو میرانی خاندان بھی حوادثِ زمانہ کی نذر ہو گیا۔ شدید حملوں کی زد میں میرانی قوم کے قبائل ایسے تتربتر ہو ئے کہ سندھ، سرگودھا، بلوچستان اور پنجاب میں مختلف مقامات کی طرف ہجرت کر گئے۔ان میں سے کئی خاندان تونسہ کے شمال میں آباد ہوئے۔ جہاں میرانی برادری کے آج بھی تین چار مواضعات ہیں۔ موضع بولانی میں غلام مصطفی خان میرانی کے آباؤ اجداد آباد ہوئے۔ کچھ آگے لیہ تک چلے گئے جہاں اب بھی اس قوم کی بہت بڑی آبادی مقیم ہے۔ سندھ میں آفتاب شعبان میرانی کا علاقہ اور بلوچستان میں میرانی ڈیم کے گردونواح میں میرانیوں کی بستیاں آباد ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ایک اپنا نظام ہے کہ عروج بخشتا ہے تو کبھی کبھار زوال بھی نازل کر دیتا ہے۔ میرانی صاحب کے فارم پر کسانوں کو کام کرتے دیکھا تو بہت خوشی محسوس ہوئی۔ میرانی صاحب نے 1989 صحرائی رقبوں اور ریگستانی ٹیلوں پر محنت شروع کی۔ صدیوں سے لق و دق صحرا کو سرسبز و شاداب کھیتوں میں بدل دیا۔ غریب آبادیوں کو روزگار کے زبردست مواقع میسر ہوئے۔ تب سی آر بی سی کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ بینکوں سے قرض لے کر چھ سات ہیوی ٹربائنیں نصب کیں۔میرانی زرعی فارم پر رات کو ہارون صاحب کے ساتھ منعقدہ نشست بڑی یادگار رہے گی۔ گرد نواح کے عمائدین کو جب پتہ چلا تو درجنوں معززین سردار حفیظ خان میرانی کی قیادت میں ہارون الرشید صاحب سے ملنے چلے آئے۔ آنے والے معزز دوستوں کے ساتھ ہارون صاحب نے ملاقات کی۔ خوب سوال و جواب ہوئے۔ ہارون صاحب نے اپنے حال و ماضی کے دلچسپ اور سبق آموز احوال سنائے۔ موجودہ سیاسی کشمکش پر گفتگو کی۔ علم و ادب کے حوالے سے بھی ان کا اظہارِ خیال نہایت مسحور کن تھا۔ انہوں نے نے جب حضرت علامہ اقبال کے بارے میں گفتگو کی تو سماعت و سرود کا عجب سماں باندھ دیا۔ کہنے لگے علامہ صاحب سچے عاشق رسولؐ تھے۔ وہ صدی کے نہ صرف بڑے شاعر اور فلسفی تھے بلکہ عظیم انسان تھے۔ قومی سیاست کے حوالے سے بعض سیاست دانوں کی کرپشن اور کرتوتوں کے بارے میں ہارون صاحب نے کہا کہ اکثر ہاتھی کے دانت ہیں دیکھنے میں کچھ اور اصل میں کچھ اور ہیں۔نہ جانے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو، ''چراغ تلے اندھیرا'' کے مصداق بین الصوبائی سڑک کی یہ حالت زار نظر کیوں نہیں آتی کہ جو کراچی سے پشاور تک جانے کے لیے ایک اہم ترین تجارتی شاہراہ ہے جس کی جغرافیائی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی حیثیت اظہر من الشمس ہے۔ گزشتہ 20 سال سے انسانوں کے لیے یہ قومی شاہراہ انتہائی خطرناک بن چکی ہے جہاں خوفناک حادثات روزانہ کا معمول بن گئے ہیں۔ یقین کریں کہ ہم سردار مصطفی خان میرانی کی محبت اور ہارون صاحب سے ملنے کی حسرت میں ڈیرہ غازی خان سے میرانی زرعی فارم تونسہ شریف کیلئے عازمِ سفر ہوئے تو کچھ فاصلے کے بعد ذلت آمیز سفر نے آ لیا۔ شکستہ قومی شاہراہ حکمرانوں کی بے حسی پر نوحہ کناں تھی۔ تمام راستہ الحفیظ و الآماں کا ورد کر تے رہے اور پھر عجب اتفاق کہ اس روز بادل بھی خوب برسے۔