جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارت ریاست کی آبادی کاتوازن تبدیل کرنے کی طرف پیش قدمی کر چکا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے کہ 5 اگست 2019 سے اس وقت تک پاکستان اپنا وہ کردار ادا نہیں کر سکا، جو اسے کرنا چاہیے تھا۔محض بیان بازی اور ’’احتجاجی مراسلوں‘‘ سے بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ہماری وزارت خارجہ ہمیشہ کی طرح گھسے پٹے بیان جاری کر کے مطمئن ہو جاتی ہے، جب کہ جموں کشمیر کے عوام اب تک سکتے میں ہیں۔انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ریاست کے عوام پون صدی سے جس وکیل کے سہارے جانیں پیش کر رہے تھے ،اس نے ایک دم اپنا کیس لڑنے کی بجائے وضاحتیں جاری کرنا شروع کر دی ہیں۔اب تو کچھ حلقوں میں یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ یہ سب کچھ ’’ٹوپی ڈرامہ‘‘ تھا۔کشمیریوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ مشرف دور کے عہد کم ظرف میں لگنے والی باڑ کے وقت ہی ختم کر دیا گیا تھا اورسادہ لوح کشمیری دیکھتے رہ گئے۔ان کے نزدیک شائد یہ بھی ایک ’’حکمت عملی‘‘قرار پائی تھی۔حقیقت سے آنکھیں چرانے کی بجائے پاکستان کے عوام کو یہ بات کھل کر بتا دینی چاہیے تھی کہ کشمیر کی آزادی ان کے بس کی بات نہیں، امکان موجود تھا کہ کشمیری کچھ اور انتظار کرلیتے۔اب تو بہت سا وقت گزر گیا۔کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد اب ریاست جموں کشمیر میں انتخابات کا مرحلہ ہے۔ 12 مئی 2022 ء کواسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے آزاد انسانی حقوق کمیشن (آئی پی ایچ آر سی) نے بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابی حلقہ بندیوں کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے اسے او آئی سی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف وزری قرار دیا ۔ ایک ماہ قبل بھارتی حکومت نے کہا تھا کہ ایک حد بندی کمیشن نے لداخ کو چھوڑ کر مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے 90 حلقوں کو حتمی شکل دی ہے، جموں کے لیے 43 اور کشمیر کے لیے 47 نشستیں رکھی گئی ہیں، اس سے قبل جموں میں 37 اور وادی کشمیر کی 46 نشستیں تھیں۔بھارت کی طرف سے بنائے گئے کمیشن نے ایک بیان میں خطے کی ’عجیب جغرافیائی ثقافتی منظر نامے‘ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ مختلف اطراف سے مسابقتی دعوؤں کو ایڈجسٹ کرنا مشکل ہے۔او آئی سی کے انسانی حقوق کمیشن نے کہا کہ بھارت کا یہ قدم عالمی انسانی حقوق اور انسانی قوانین کی خلاف وزری ہے۔اس احتجاج کے بعد بھی بھارت باز نہیں آیا تو یہ جان لینا چاہیے کہ بھارت اپنے مقاصد کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کرے گا جس سے ریاست کا قضیہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ سری نگر سے بی بی سی کے نمائندے نے بتایا ہے کہ مودی حکومت نے ریاست جموں کشمیر میں غیر مقامی لوگوں اور بھارت سے منتقل کی گئی فوج کو بھی انتخابات میں ووٹ دینے کا حق دے دیا ہے۔یہ اعلان جموں کشمیر کے چیف الیکشن افسر ہردیش کمار نے کیا ہے جس کے مطابق کشمیر میں رہنے والے غیر مقامی طالبعلم، مزدور، ملازم اور فوجی اہلکاروں کو بھی اب انتخابات کے دوران ووٹ ڈالنے کا حق ہو گا۔ ہردیش کمار نے کہا کہ دفعہ 370 ہٹ جانے کے بعد اب وہ لوگ بھی ووٹ ڈال سکیں گے جو کبھی ووٹ نہیں ڈال سکتے تھے۔مزید وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ عمل دہائیوں سے پورے انڈیا میں جاری تھا لیکن جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی وجہ سے یہاں نافذ نہیں ہو پایا تھا۔بہت سارے نوجوان فوج میں ہیں۔ وہ مختلف ریاستوں میں تعینات ہیں۔ اُن کو یہ آپشن حاصل ہے کہ وہ جہاں تعینات ہیں وہ وہیں پر ووٹر لِسٹ میں اندراج کروا سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح یہاں جو فوجی یا فورسز کے اہلکار تعینات ہیں وہ یہاں ووٹر لسٹ میں اندراج کر کے ووٹ کا حق یہیں پر استعمال کر سکتے ہیں۔ حالیہ حکمنامے کے مطابق ایسے کسی بھی ووٹر کو ’سروس ووٹر‘ کہا جاتا ہے۔واضح رہے 5 اگست 2019 کو انڈین پارلیمان نے ’جموں کشمیر تنظیمِ نو‘ بل منظور کیا تو اس کے مطابق جموں کشمیر کا عوامی نمائندگی قانون منسوخ ہو گیا۔ اُس قانون کے مطابق یہاں کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے یا الیکشن لڑنے کے لیے جموں کشمیر کا مستقل باشندہ ہونا لازمی تھا۔ اب انڈیا کے وفاقی قانون برائے عوامی نمائندگی کو پورے ملک کی طرح جموں کشمیر میں بھی نافذ کیا گیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق اس فیصلے کے خلاف ریاست کی سیاسی جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیاہے۔سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ ’ایسے اقدامات سے بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ کیا بی جے پی اس قدر عدم تحفظ کا شکار ہے اسے انتخابات میں ووٹرز امپورٹ کرنے کی ضرورت ہے؟‘سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا ’اس فیصلے کا اصل مقصد آہنی ہاتھوں سے جموں کشمیر پر حکومت کر کے کشمیریوں کو مزید بے اختیار بنانا ہے۔‘پیپلز کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر سجاد غنی لون نے کہا کہ یہ فیصلہ 1987 کو دہرانے کی طرف پہلا قدم ہے۔یاد رہے کہ 1987 کے انتخابات میں بے تحاشا دھاندلی کا الزام لگا کہ جیتے ہوئے اُمیدواروں کو شکست یافتہ قرار دیا گیاتھا۔ اُن ہی اُمیدواروں میں محمد یوسف شاہ بھی تھے جو بعد میں مسلح گروپ حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر بن گئے۔اس سلسلے میں محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ نے پیر کے روز کل جماعتی اجلاس بھی طلب کیا ہے جس میں محبوبہ مفتی کے مطابق ’آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔‘