صدقے جائیں ایسے نظام کے جس میں جتنے نگران وزیر اعظم مارکیٹ میں قسمت اور زور آزمائی کی کوشش کر رہے ہیں اتنے ہی وعدہ معاف گواہ ’’پسندیدہ اقبالی جرم‘‘ کا اعتراف کرنے کے لئے موجود ہیں۔صدقے جائیں ایسے نظام کے جس کے عدالتی نظام پر انگلیاں اٹھ رہی ہوں۔ حامد خان جیسا ممتاز وکیل یہ کہنے پر مجبور ہو کہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں عدالتوں میں ان پر صرف مہر لگائی جاتی ہے۔’صدقے جائیں ایسے نظام کے‘جہاں پر ایک سابق وزیر اعظم 70سے زیادہ جلسوں میں یہ کہہ کر کہ اسے بیرونی طاقتوں نے اقتدار سے اتار پھینکا۔آج انہی ممالک کے زیر اثر ایک مالیاتی ادارے کے ذمہ داروں سے درخواست کر رہا ہے کہ اور تو کوئی جواب نہیں دیتا آپ ہی بتا دیں کہ ہمارے ملک میں الیکشن کب ہوں گے۔’صدقے جائیں ایسے نظام کے‘کہ 2016ء سے 2018ء تک جس طرح سیاسی نکاح ہوئے تھے۔آج وہی نکاح طلاقوں پر منتج ہو رہے ہیں۔محبت کا دم بھرنے والے اب ایک دوسرے سے منہ پھیر رہے ہیں۔’صدقے جائیں ایسے نظام کے‘نظام کے جس میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے کو امداد نہ دینے پر اکسانے والے اس قیمت پر کہ ملک بھاڑ میں جائے۔اب اسی ادارے کے سرکردہ افراد سے بغلگیر ہو کر خوشی سے جھوم رہے ہیں۔ ’صدقے جائیں ایسے نظام پر جہاں ہم آئین میں لکھے ہوئے حدود و قیود اور قواعد و ضوابط پر سے بلا تکلف پھلانگ جائیں۔ ’صدقے جائیں ایسے نظام کے‘جب سیاسی پارٹیاں اور رہنما اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کریں اور پھر ان پر بے رحمانہ تنقید شروع کر دیں۔اپنے حامیوں کو فوجی تنصیبات پر حملے کے لئے اکسائیں اور ’صدقے جائیں ایسے نظام پر جو اس مملکت خداداد میں انصاف قائم نہ کر سکا۔دنیا بھر کی کتابوں میں تو قانون کی تعریف یہی لکھی گئی ہے اور یہ کہ عدالتیں قانون اور ضابطے درحقیقت لوگوں کے مابین تمیز کے خاتمے کے لئے وجود میں لائی جاتی ہیں، قانون اگر اپنے بنیادی مقصد سے انحراف کر رہا ہو تو درحقیقت وہ قانون ہوتا ہی نہیں قانون اپنے تئیں درحقیقت برابری کے مواقع فراہم کرنے کا نام ہے۔قانون کی نظر میں وہی فیصلے تکریم کے مستحق ہوتے ہیں، جن میں انصاف اپنی اعلیٰ ترین روایات اور سچائی کے ساتھ جھلکتا نظر آئے۔اس ملک میں ایک عام آدمی اسی امید کے ساتھ مستقبل میں جھانک رہا ہے کہ وقت بدلے گا۔ان ہم وطنوں کو امید واثق ہے کہ نظام انصاف کو زیادہ موثر اور شفاف بنانے کی کوشش کی جائے گی اور 233500036افراد کے اس ملک کی عدالتیں وہ کچھ کریں گی۔جسے انصاف کہتے ہیں ایسا انصاف جو اپنے ہر زاویے سے انصاف نظر بھی آئے عقل سوال کرتی ہے کہ اقتدار میں لانے اور نکالنے کا یہ عمل کب تک جاری رہے گا۔پاکستانی معاشرے میں یہ سوال بھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے کہ ملک کی پاور پالیٹکس میں سب سے کلیدی کردار فوج کا ہے۔اگر آج کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو کنگز پارٹیوں کے وجود میں آنے کی اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نظر نہیں آتی کہ بوقت ضرورت کسی بھی سیاسی اور سویلین چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسے افراد کو استعمال کیا جا سکے جن کو ان کی بشری کمزوریوں کو انہی کے خلاف خوف کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق ہانکا جا سکے۔یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست میں اپنی پوزیشن کو پوری ہوشیاری اور بردباری سے استعمال کرنے کے بجائے بہت جلد تخلیق اپنے خالق سے زیادہ چالاک بننے کی کوشش کرنے لگتی ہے اور پھر یہ سیاسی کردار خواہ وہ نواز شریف ہوں یا عمران خان نہ ماضی سے اور نہ ہی تجربات سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔میں آج جب عمران کے سیاسی فیصلوں اور آگے بڑھنے کے عمل پر نظر ڈالتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ وہ یہ بھول ہی گئے کہ جن لوگوں نے انہیں 2011ء میں لانچ کر کے 2018ء میں نواز شریف کے راستے میں روڑے اٹکا کر ان کے لئے اقتدار میں آنے کا راستہ ہموار کیا تھا پھر ایسی کیا ان بن ہوئی جس کی سزا پونے چار سال بعد عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے برطرفی کی صورت میں بھگتنی پڑی۔لگتا یہی ہے کہ ان کی طرفی کے بعد جو کچھ ہوا وہ حیران کن تھا عمران خان یکے بعد دیگرے ریڈ لائنز پھلانگتے ہوئے یہ بھول گئے تھے کہ انہوں نے خاموشی اختیار کرنے سے انکار کر کے جس پرجوش مہم کا آغاز کیا ہے ان کی پارٹی 9مئی کے قابل مذمت واقعات تلے آ کر چور چور ہو جائے گی۔یہ تو خود عمران خان کے سوچنے کی بات تھی کہ تمام امکانات سے بے نیاز ہو کر ایک باغیانہ رویہ اختیار کرنے پر کیوں بضد تھے، اگر وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ دائو کا پانسہ ان کے حق میں پلٹ جائے تو آج کے حالات میں یہ ان کی خوش فہمی نظر آتی ہے۔عمران شاید اب بھی اس مخمصے میں ہیں کہ فیصلہ کن موڑ پر جب پاکستانی قوم کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہو گا تو سیاسی میدان میں ان کے غلبے کو کوئی نہیں روک سکے گا۔لیکن وہ شاید بھول رہے ہیں کہ گزشتہ دو ماہ میں پیش آنے والے واقعات نے ان کی مقبولیت اور تنظیم کو شدید دھچکا لگایا ہے۔ عمران خان یہ بھی بھول رہے ہیں کہ دوسری سیاسی قوتوں کو مطعون کر کے وہ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔عمران خان جس طرح اپنے بیانیے کو لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ تدبیریں اسی طرح انہیں الٹی پڑتی جا رہی ہیں اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں ان کی مقبولیت پر سوال اٹھا رہا ہوں وہ پاکستان میں اس وقت بھی کسی بھی لیڈر سے زیادہ مقبول ہیں لیکن ان کی خوش بختی ہے کہ ان کے سیاسی حریف بہت کمزور ہیں اور وہ اپنا بیانیہ بنانے اور عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے۔جس کی ضرورت بھی‘پھر مہنگائی اور بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے بوجھ نے ان کے سیاسی اثاثوں کا کچومر نکال کر رکھ دیا ہے، اس لئے ان کے یہ سیاسی حریف مسلسل پینترے بدلنے کی سیاست کرنے پر مجبور ہیں ،اس لئے اس وقت ملک میں نہ نظریاتی سیاست ہو رہی ہے اور نہ ہی اسے انقلابی سیاست کہہ سکتے ہیں۔سب کا مقصد اقتدار کا حصول ہے، اسی لئے سیاسی منظر نامہ دھندلایا ہوا ہے لیکن منطقی طور پر ایسا نظر آتا ہے کہ 9مئی کے واقعات کے بالآخر جو نتائج آئیں گے۔ یاد رکھیں انتخابی نتائج بھی اس سے مماثل ہوں گے۔ 2018ء میں جو کچھ نوازشریف نے بھگتا۔اب اسے آپ مکافات عمل کہیں یا خود غرضانہ سیاست کے نتائج اسی صورت حال سے عمران خان دوچار ہیں۔ موجودہ صورتحال نے خود پاکستان کی مقتدر قوتوں کو ایک منفرد چیلنج سے دوچار کر دیا ہے آج پاکستان کی سیاست میں مخالف کو غداری سے جوڑنا اسلامی ٹچ کے ذریں اصولوں کا تڑکا لگانے ایمانداری کے پلاٹ پر ناجائز قبضے تمام سیاستدان اس ہنر اور گُر کو سیکھ کر بڑی کامیابی سے اپنے مخالفین پر آزما رہے ہیں۔سیاسی میدان میں لگے تماشے دیہاڑی لگانے کے لئے وافر مواقع فراہم کر رہے ہیں بھکڑ پن کی بے شمار گنجائش نکل آئی ہے۔واقعات کہانی کے اگلے باب کا پتہ دے رہے ہیں۔ایسے فارمولے ایجاد ہو گئے ہیں کہ کسی کو نکالنا بھی آسان ہے اور پھنسانا بھی۔ہم جس نان اسٹاپ چلتی فلم کو دیکھ رہے ہیں تو اس کے مناظر ہنسنے سوچنے اور رونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔