امجد اسلام امجد کی قبر کی مٹی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ضیاء محی الدین بھی ہم سے بچھڑ گئے۔ سمجھ نہیں آ رہی یہ کیسا پت جھڑ ہے۔ خزاں کے پتوں کی طرح لوگ جدا ہوتے جا رہے ہیں۔یہ چند بڑے ا ور مشہور لوگوں کی موت نہیںہے ، یہ ہمارا عہد ہے جو دھیرے دھیرے ختم ہورہا ہے ، یہ ہم ہیں جو رفتہ رفتہ مر رہے ہیں۔ ہماری کہانی ختم ہو رہی ہے ، ہمارا زمانہ رخصت ہو رہا ہے ۔ ہماری یادیں برف کی صورت دھوپ میں رکھی ہیں ، ہم قطرہ قطرہ پگھل رہے ہیں۔ کہیں پڑھا تھا کہ انسان اچانک نہیں مرتا ، اسے دھیرے دھیرت موت آتی ہے۔ اس کے عزیز،اس کے پیارے ، اس کے دوست ، اس کے ہیرو ، ایک ایک کر کے رخصت ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے پیاروں کو دفنا کر بظاہر تو مکمل لوٹ آتا ہے لیکن سچ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے وجود کا ایک حصہ بھی جانے والوںکے ساتھ ہی کہیں دفن کر آتا ہے۔ جنازے اٹھتے رہتے ہیں اور اس کا وجود بھی ان جنازوں کے ساتھ کٹ کٹ کر دفن ہوتا رہتا ہے۔ یہں تک ایک وقت آتا ہے زمانہ اس کے لیے اور وہ زمانے کے لیے اجنبی ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کے اتنے پیارے زمین پر نہیں ہوتے، جتنے زمین کے اندر ہوتے ہیںاور اس کی یادوں کا ایک بڑا حصہ زیر زمین جا چکا ہوتا ہے۔ تب پھر ایک دن وہ بھی اپنے ادھورے پن کو لے کر ہجرتی ہو جاتا ہے، وہ بھی مر جاتا ہے۔ ہمارے عہد کی علامتیں ایک ایک کر کے رخصت ہو رہی ہیں۔ کچھ لوگ وہ تھے جن سے خون کے رشتے تھے ، کچھ وہ تھے جن سے خون کا تعلق تو نہیں تھا مگر وہ دیوار دل سے لگے تھے۔ ہر دو اطراف سے ہجرتیں ہو رہی ہیں۔ اداسی بڑھتی جا رہی ہے۔ کبھی کبھی شام ڈھلتی ہے تو یادیں دستک دیتی ہیں، دل کے اندر کہیں کچھ ٹوٹ سا جاتا ہے ، چپ سی لگ جاتی ہے ۔ گاہے نانا جی چودھری ظہیر الدین کی یاد آتی ہے ، ان کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا تھا ، جاڑے کی رت میں کینو کے باغات میں ان کا ہاتھ پکڑ کر گھومنا ، ان سے اے بی سی سیکھنا ، ایک لمحہ ہوتا ہے جب یادوں کی کھڑکی کھلتی ہے اور پھر جانے کیا کیا کچھ یاد آ جاتا ہے۔ کبھی نانی کی یاد آتی ہے ، وجھوکہ کے رستوں میں ان کی پیار کی خوشبو ستاتی ہے اور بیٹھے بیٹھے اداس ہو جاتا ہوں۔ کبھی صفدر علی چودھری یاد آ جاتے ہیں ، کبھی چچا چودھری محمد مختار گوندل دیوارِ دل پر دستک دیتے ہیں ، میں نے بھی خطاطی انہی سے سیکھی تھی اور میرے کزن مرحوم خورشید عالم گوہر قلم نے بھی۔ کبھی ندیم یاد آ جاتا ہے ۔کبھی ڈاکٹر خضر محمود یاد آ جاتے ہیں، تہہ خاک میرے پیاروں کی ایک دنیا آباد ہے ۔ زمین کے نیچے سوئی محبتیں کبھی کروٹ بدلتی ہیں تو زمین کے اوپر کے سارے موسم سوگوار ہو جاتے ہیں۔ کچھ تعلق دل کے تعلق ہیں ، سماج اور تہذیب کے رشتے ہیں۔ حضرت قاری مولانا شہاب الدین مرحوم تھے ، استاذ محترم راجہ بشیر احمد تھے ، میرے استاد ، بزرگ ، مہربان ملک معراج خالد تھے ، استاد مہدی حسن تھے ، میڈیم نور جہاں تھیں ، طارق عزیز تھے، انتظار حسین تھے ، جسٹس جاوید اقبال تھے ، منیر نیازی تھے ، ۔۔۔۔ لمبی فہرست ہے ، کچھ یاد رہا کچھ بھول گیا والا معاملہ ہے۔ ایک نشست میں بیٹھ کر یاد کریں تو ممکن ہی نہیں سب یاد آ جائیں۔ ہاں مگر ایسا ہوتا ہے کہ چلتے چلتے ، کسی پیڑ کے نیچے بیٹھے ، کسی وادی سے گزرتے ، ہنستے بستے ، بیٹھے بیٹھے ، جانے انجانے میںکہیں کسی کی یاد آ جاتی ہے اور دل ڈوب سا جاتا ہے۔ گائوں جائیں تو قبرستان میں ابھری ہوئی ڈھیریوں کو دیکھ کر دل کٹتا ہے ، اسلامی یونیورسٹی کا رخ کریں تو ملک معراج خالد یاد آتے ہیں، مارگلہ کی طرف نکلیں تو مس مصرو دیوار دل پر دستک دیتی ہے ، ایف سکس سے گزر ہو تو انکل نسیم انور بیگ کی یادستاتی ہے۔ جب ہر موڑ پر کسی کی یاد آتی ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہم اپنے بہت سے پیاروں کو کھو چکے۔ زمین کے اوپر بھی بہت سے پیارے لوگ موجوود ہیں ۔مگر زمین کے نیچے بھی کم نہیں۔ دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ نیچے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم ایک کو رخصت کر آتے ہیں اور اپنے وجود کا ایک ٹکرا ساتھ ہی چھوڑ آتے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے ہمارے جانے کا وقت بھی آ جاتا ہے۔آج تم کل ہماری باری ہے۔ کچھ لوگ آپ کے عہد کی علامت ہوتے ہیں کوئی علم و فضل کی نشانی ہوتا ہے تو کوئی تہذیب و ثقاقت کی۔ ان لوگوں کا ایک ایک کر کے اٹھتا جانا ، اس عہد کی موت کا اعلان ہوتا ہے۔ موٹروے پر شام اتر رہی تھی ، پوٹھوہار سے گزرتے سمے میں نے استاد مہدی حسن خاں صاحب کی غزل لگا لی،علی اور عائشہ کا دبا دبا احتجاج بلند ہونے لگا کہ یہ کیوں لگا لیا۔ میں نے ان کے مطالبے کے آگے سرنڈر کر دیا۔ میں بچوں کو کیسے بتاتا کہ یہ کون ہے اور فن کی دنیا میں اس جیسا کون ہے؟میں نے بتانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ وقت نہیں رہتا ، وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ کیاپتا ایک وقت آئے وہ خود ہی جان لیں مہدی حسن کون تھا اور اس جیسا کون ہے؟ امجد اسلام امجد اور ضیاء محی الدین کی موت بتا رہی ہے کہ ہمارا دور جا رہا ہے۔ہم مر رہے ہیں ۔ ہمارا عہد مر رہا ہے۔ہمارے دور کی نشانیاں ایک ایک کر کے رخصت ہو رہی ہیں۔اب کون ہے جو ضیاء محی الدین جیسا ہو۔ ایسی آواز اب کہاں سے آئے گی ۔ اب کون ہے جو بولے تو وقت کے سر تھم جائیں۔نستعلیق لہجے جدا ہو رہے ، نجیب لوگ اٹھ رہے ہیں ، کلاسیکل دور مٹ جا رہا ہے ، کمال کو موت آ رہی ہے ۔ ایسا نہیں کہ وقت بڑے لوگ پیدا نہیں کرے گا۔ آئیں گے اور بہت آئیں گے۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اتنا جلد نہیں آئیں گے۔یہ وقت زوال کا وقت ہے۔جتنے بڑے آدمی تھے قیام پاکستان سے پہلے کے تھے۔ جو اٹھتا ہے معلوم ہوتا ہے پرانے وقتوں کا گوہر نایاب تھا۔ سوال یہ ہے کہ آزادی کے بعد اس سماج کو کیا ہو گیا؟ ہم سے کیا خطا ہو گئی کہ امجد اسلام اٹھتا ہے تو دور دور تک کوئی امجد اسلام امجد نہیں ہوتا ، ضیاء محی الدین جاتے ہیں تو کوئی ان جیسا نہیں ہوتا ، اہل سیاست میں کوئی ملک معراج خالد نہیں ہے ۔ یہ زوال کا وقت ہے اور جب زوال آتا ہے تو سارے سماج پر آتا ہے اس میں پھر کمال کے جزیرے آباد نہیں ہو سکتے۔ جو پرانے جزیرے تھے وہ سوکھ رہے ہیں۔جو بھلے لوگ تھے وہ مر رہے ہیں۔ ہم سب مر رہے ہیں۔ ہمارا عہد مر رہا ہے۔