مادر وطن میں عدم برداشت کا معاملہ آخری حدوں کو چھو گیا۔ دلیل کے بجائے اب ہاتھ سے کام لیا جا رہا ہے ۔ایک دوسرے کو مکوں اور لاتوں سے سبق سیکھانے کا عمل شروع ہے۔ہماری زبان سے جوش و جذبات میں وہ کچھ نکل رہا ہے جو ٹھنڈے دل و دماغ سے کوئی بھی انسان کہنے کا تصور نہیں کر سکتا ۔یہ بات تو درست ہے کہ محبت اندھی ہوتی ہے لیکن اندھی تقلید معاشرے میں زہر گول رہی ہے جس کے اثرات بڑے ایوانوں سے نیچے تک سرائیت کرچکے ہیں عدم برادشت کی آگ نے ہر طرف تناواور الجھاؤ کی شکل اختیار کر لی ہے کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم یہ کیا کر رہے ہیں۔ تو تو میں میں سے سلسلہ شروع ہوتا ہے اور پھر ایک دوسرے کے گریبان تک ہاتھ پہنچ جاتے ہیں۔ مانا کہ اس وقت میڈیا شتر بے مہار ہو چکا ہے اس پر نہ صرف کنٹرول مشکل ہو چکا ہے بلکہ سوشل میڈیا کے تمام ذرائع پر لفظوں کی گولہ باری نے اخلاقیات کی تمام حدیں پھلانگ دی ہیں۔ دماغ چکرا جاتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اب تو سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ ہم مسلمان ہیں ہمارے مذہب میں تو دل آزاری بہت بڑا گناہ ہے اور سب سے بہترین مسلمان یا مومن اسے قرار دیا گیا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ قرآن پاک میں جھوٹے پر اللہ نے لعنت بھی بھیجی ہے اور جھوٹ کو تمام برائیوں کی جڑ بھی کہا ہے ۔ ابھی کی بات کرتے ہیں جی پروگرام کل تک جس کے میزبان معروف اینکر کالم نگار ہیں ان کے شو میں ہونے والا واقعہ کسی بھی اعتبار سے مستحسن نہیں ۔ پوری قوم نے ہی نہیں بلکہ دنیا نے یہ واقعہ دیکھا کہ دو پڑھے لکھے نوجوان کس طرح پہلے لفظی گولہ باری کرتے رہے تہذیب و اخلاق سے عاری گفتگو کا آغاز کس نے کیا یہ اب معانی نہیں رکھتا ایک وکیل جو کہ پاکستان کی ایک سابق حکمران جماعت کا نمائندہ اور وکیل بھی تھا جبکہ پاکستان کے ایوان بالا کا ایک اہم رکن جس کا تعلق بھی پاکستان کی سابق حکمران جماعت سے تھادونوں نے کیا یہ اچھا عمل کیا ہے؟ اگر ایک اپنی نشست سے اٹھ کر ان پر حملہ آور ہوا تھا تو انہیں چاہئے تھا کہ تحمل کا مظاہرہ کرتے لیکن یہاں تحمل دکھانا بھی کمزوری اور بزدلی قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ ہمارے مذہب میں بدلہ لینے کی بجائے معاف کرنے کے عمل کو افضل قرار دیا گیا ہے۔فریقین جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔چلیں اگر واقعہ ہو بھی گیا تھا تو میزبان کا کام تھا کنٹرول کرتے۔ پروگرام بعد ان دونوں کے درمیان صلح بھی کروائی جا سکتی تھی جو نہیں کروائی گئی یہ کسی بھی شو میں پہلا ناخوشگوار واقعہ نہیں ہے۔ دنیا بھر کے ہاتھا پائی کے واقعات کے کلیپس میں اب ہمارے ملک کا نام بھی روشن ہے ستم تو یہ ہے کہ اب ہر تیسرا بندہ اس واقعے کو اپنی زبان میں اپنے الفاظ میں بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہے کہ کس نے کتنی پھنٹی لگائی۔ افسوس صد افسوس کہ ہم ریٹنگ کے چکر میں مذہبی اور اخلاقی قدروں کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ ان دو احباب کے اس کارنامے کو اب نچلی سطح پر پارٹی کارکنوں میں بھی بحث مباحثہ لڑائی جھگڑے کا سبب بنے گا۔ ہم میڈیا ہائوسز سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ میزبان کے طور پر کسی بھی پروگرام میں بلائے جانے والے مہمانوں کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کریں اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروانے کی کوشش کریں۔ ضابطہ اخلاق کی پابندی نہ کرنے والوں پر پروگرام میں شرکت پر پابندی عائد کر دیں اور جہاں لڑائی جھگڑے کا امکان ہو وہ پروگرام ریکارڈ کر کے چلایا جائے تاکہ جگ ہنسائی نہ ہو۔ چینل مالکان بھی تو پیمرا کے ضابطہ اخلاق کی پابندی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان کے لیے بھی مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ محاذ آرائی لڑائی مار کٹائی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں مکالمہ ہی محاذ آرائی کو کم کر کے ختم کر سکتا ہے۔ یہی مستحسن عمل ہے آگے بڑھیں اور ایک دوسرے کو گلے لگایں تاکہ معاشرے میں عدم برداشت کی آگ کی تپش کو کم کرنے میں مدد ملے۔ سقراط نے اپنی درس گاہ/مجلس میں بیٹھنے کے آداب مقرر کر رکھے تھے اونچی آواز سے بات کرنا منع تھا۔ زبان کی بجائے ہاتھ کو استعمال کرنا ممنوع قرار دیا گیا تھا اور اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا تو۔اس کو فوری طور پر اس درس گاہ سے نکال دیا جاتا تھا، سقراط کا کہنا تھا کہ برادشت سوسائٹی کی روح ہوتی ہے۔ سوسائٹی میں جب برادشت کم ہو جاتی ہے تو مکالمہ کم ہو جاتا ہے اور جب مکالمہ کم ہوتا ہے تو معاشرے میں وحشت بڑھ جاتی ہے۔ سقراط نے کہا تھا کہ اختلاف دلائل اور منطق پڑھے لکھے لوگوں کا کام ہے یہ فن جب تک پڑھے لکھے عالم فاضل لوگوں کے پاس رہتا ہے اس وقت تک معاشرہ ترقی کرتا ہے لیکن جب مکالمہ یا اختلاف جاہل لوگوں کے ہاتھ آ جاتا ہے تو پھر معاشرہ انارکی کا شکار ہو جاتا ہے۔ سقراط نے عالم کے بارے میں کہا کہ کوئی عالم اس وقت تک عالم نہیں ہو سکتا جب تک اس میں برداشت نہ آ جائے اور جب تک وہ ہاتھ اور بات میں فرق نہ رکھے۔ سقراط عظیم فلاسفر تھا اس کی باتیں دنیا نے تسلیم کر کے ترقی کی منازل طے کیں، آج وطن عزیز کے حالات دیکھ کر ٹی وی شوز میں چوکوں اور چوراہوں میں سوشل میڈیا پر جو واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں اس سے لگتا تو ایسے ہی ہے کہ ہم نے برادشت، مکالمہ کو کوئی اہمیت نہیں دی ۔ سقراط کے مطابق ہمارے معاشرے میں انارکی پھیل چکی ہے برادشت ختم ہو چکی ہے پڑھے لکھے عالم، عالم خاموشی میں ہیں جس کی وجہ سے موجودہ دور کے عالم ہاتھ اور بات میں فرق نہیں رکھ رہے جس کی بنا پر وحشت کا ماحول بن گیا ہے آئیے اپنا اپنا محاسبہ کریں اور اپنے کردار پر نظر ثانی کریں تاکہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے،موجودہ حالات سے ملک و قوم کو نکالنے کیلئے ہر سطح پر مکالمے کی اشد ضرورت ہے ۔