بھلا ہو سوشل میڈیا کا جو عام آدمی کو اُن حقائق سے با خبر رکھتا ہے، جن کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا مثلاً اب عام آدمی کو بھی معلوم ہے کہ اپنے ملک کی بیوروکریسی کے کتنے افسران کے پاس اپنے ملک کی شہریت کے ساتھ ساتھ دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی شہریت بھی ہے ۔ ان کے پاس کس کس ترقی یافتہ ملک میں اپنے گھر ہیں جہاں اُن کے خاندان رہتے ہیں اور ان کی اولادیں وہاں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ اب تو وزیراعظم ہائوس کے لیے چند کرسیاں بھی خریدی جائیں تو ان پر خرچ کی گئی رقوم کا بھی عام آدمی کو معلوم ہوتا ہے۔ بلاشبہ آگہی ایک اچھی چیز ہے لیکن اس کے اپنے کچھ منفی پہلو بھی ہیں مثلاً اس سے انسان ایک قسم کی اذیت میں بھی مبتلا رہتا ہے۔آپ نے سنا ہو گاکہ بے خبروں کی موجیں ہی موجیں ! لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آگہی اللہ کی ایک نعمت ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے آپ سے اور اپنے ارد گرد سے با خبر رہتا ہے اور باخبر انسان کے فیصلے مبنی بر حقائق ہوتے ہیں جن کے نتائج ہمیشہ بہتر ہوتے ہیں۔جس خطہ زمین میں ہم رہتے ہیں، اس کی اگر تاریخ پر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہاں کے عام آدمی کا ہمیشہ کسی نہ کسی طور ہر طرح کا استحصال ہوتا رہا ہے ۔ کسی دور میں باہر کے علاقوں کے فاتحین نے یہاں پر قبضہ کر کے حکمرانی کی ۔ یہاں کے عام آدمی کو غلام بنا کر رکھا اور یہاں کی ہر قسم کی دولت لوٹ کر اپنے ملکوں میں لے گئے۔ ان علاقوں کے باشندوں کی بد نصیبی دیکھیں کہ جب یہاں کے اپنے لوگوں کے پاس بھی حکمرانیاں آئیں تو انھوں نے بھی وہی کیا جو باہر سے آئے فاتحین کیا کرتے تھے ، یعنی یہاں سے ہر چیز لوٹی اور لے کر دوسرے ممالک میں چلتے بنے۔اب اپنے ملک میں کہنے کو تو جمہوریت ہے لیکن حقیقتاً یہاں کوئی جمہوریت نہیں ہے بلکہ گنے چنے چند خاندان ہیں جو آپس میں مل جل کر یہاں کے عوام پر حکومت کرتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔ان چند خاندانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ نہ کوئی خلوص کا رشتہ ہے ہوتا ہے اور نہ ہی محبت کا ،لیکن یہاں کے عام آدمی کو لوٹنے اور اس کا استحصال کرنے کے لیے یہ باہم یکجا ہو جاتے ہیں۔ لیکن باعث طمانیت یہ بات ہے کہ اب عام آدمی کو یہ آگاہی ہونے لگ گئی ہے کہ ان کا استحصال کرنے والے یہ گروہ اور طبقات کیسے کیسے اور کس حد تک ان کو لوٹ رہے ہیں۔ اب عام آدمی کو بھی پتہ چلتا جا رہا ہے کہ اس ملک میں کون کون لوگ ہیں اور وہ کتنی تعداد میں ہیں جنہیں ان کے گھروں اور بنگلوں میں مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے لیکن دوسری طرف عام آدمی کے لیے بجلی اور سوئی گیس کے ریٹس ہر مہینے بڑھا دئیے جاتے ہیں۔اسی طرح عام آدمی کے لیے پٹرول اور ڈیزل کے ریٹس مہینوں نہیں بلکہ دنوں بعد بڑھا دئیے جاتے ہیں، جن کے اثرات عام آدمی کو بھگتنے پڑتے ہیں لیکن آج بھی اس ملک میں ایسے لوگ ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں جنہیں ان کی گاڑیوں کے لیے حکومت مفت پٹرول مہیا کرتی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ گاڑیاں صرف سرکاری امور کو نبٹانے کے لیے مصروف نہیں رہتیں بلکہ ان کے گھروں میں رہتی ہیں جنہیں ان کی اولادیں اور خاندان کشادہ دلی سے استعمال کرتے ہیں۔ذہن میں یہ واضح رہے کہ یہ گاڑیاں بھی عوام کے پیسوں سے خریدی گئی ہوتی ہیں اور ان کی مرمت وغیرہ پر بھی سرکاری رقوم استعمال ہوتی ہیں۔آج کل عوام میں اس بات کا ذکر بھی ہو رہا ہے کہ صدر پاکستان جناب زرداری صاحب نے تنخواہ لینے سے تو انکار کر دیا ہے لیکن سندھ میں واقع دو ہاوسز (Houses ( کو صدر ہاوسز کا درجہ دلا دیا ہے جو اُن کے زیر استعمال رہیں گے۔ظاہر ہے اُن دو ہاوسزپر اُٹھنے والے تمام اخراجات اس غریب قوم کو ہی برداشت کرنے پڑیں گے۔ آپ کے علم میں ہو گا کہ آج کل جناب وزیراعظم صاحب وفد کے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب تشریف لے جا چکے ہیں جس کی یہ وضاحت اخباروں میں چھپ چکی ہے کہ اس عمرہ پر اُٹھنے والے اخراجات وفد میں شامل ہر فرد خود برداشت کرے گا ۔ چلیں یہ ایک اچھی بات ہے لیکن اس بات کی سمجھ نہیں لگی کہ وزیراعظم صاحب کو اس نیک کام کے لیے ایک وفد ساتھ لے جانے کی ضرورت کیوں پڑی ۔ موجودہ دور کے حکمرانوں کو ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ اس دور میں عوام اور حکمرانوں کے درمیان کوئی زیادہ فاصلے نہیں رہ گئے ، سوشل میڈیا نے عوام کے سامنے ہر چیز واشگاف کر دی ہے۔جس عوام کو فارم نمبر 45 اور فارم 47 پر حاصل کردہ ووٹوں اور ان میں فرق تک معلوم ہو اس سے کوئی چیز کہاں تک چھپی رہ سکتی ہے۔اس آگہی کے نتائج یہی ہونگے کہ ہمارے حکمرانوں کے لیے عوام کا سامنا کرنا مشکل ہو جائے گا ۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ طاقت و جبر سے عوام کی آواز کو دبایا جا سکتا ہے تو وہ ظاہر ہے کسی غلط فہمی کا شکار ہے ، اگہی ، علم ہوتی ہے اور علم ایک طاقت ہوتی ہے جسے ظلم و جبر سے نہیں دبایا جا سکتا۔ بہتر راستہ یہی ہو گا کہ راستی اور سچ کو فروغ دیا جائے ۔سچ کو دبانے سے سچ نہیں دبتا بلکہ اس کے نتائج کئی اور راستوں سے نمودار ہونے لگتے ہیں۔ اب تو اپنے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے جج صاحبان کو بھی لفافے موصول ہونے لگ گئے ہیں جنہیں موصول کرنے والے ہاتھ بھی چھونے سے گھبراتے ہیں۔ ان تمام حالات سے اپنے ملک میں ایک بے یقینی کی فضاء قائم ہوتی جا رہی ہے جس کے واضح نتائج معاشی بد حالی ہوتی ہے۔کسی بھی ملک میں جب ایسی صورت حال پنپنے لگے تووہ آنے والے مایوس کن نتائج کی نشاندہی کرتی ہے ۔ ابھی بھی وقت ہے کہ حالات کو سدھارنے کی سعی کی جائے اور معاملات کو صحیح سمت کی طرف لے جایا جائے ۔اپنے ملک میں بڑے بڑے ذہن موجود ہیں جو ملک میں بہتری لا سکتے ہیں بشرط کہ انھیں کوئی موقع دے۔ سچ پوچھیں ، موجودہ سنگینی حالات کو کم کرنے کی فوری اور اشد ضرورت ہے ۔ اپنے ملک میں نہ تو قابل و ذہین لوگوں کی کوئی کمی ہے اور نہ ہی محب وطن افراد کی ! ضرورت صرف اس بات کی ہے اپنی ذات و خاندانوں کے مفادات سے ہٹ کر سوچا جائے ۔ سچ پوچھیں ، جس طرف نظر دوڑائیں ہر طرف خود غرضی و جھوٹی اناء کے غول نظر آتے ہیں۔ قوم بے چاری آئی ایم ایف (IMF ( کے قرضوں کے لیے دعائیں کرتی پھرتی ہے اور بجلی و سوئی گیس کے بلوں کی ادائیگی کی سوچوں میں سرگرداں ہے ۔اللہ اس قوم پر رحم کرے ۔ ٭٭٭٭٭