اسرائیل کے فوجی جارحیت کے نتیجے میں غزہ کے حالات انتہائی مخدوش ہوچکے ہیں۔ صحت اور تعلیم سمیت تمام انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق سات اکتوبر سے شروع ہونے والے غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں اب تک کم از کم 28,775 فلسطینی شہید اور 68,552 زخمی ہو چکے ہیں جبکہ 7 اکتوبر کو حماس کی قیادت میں ہونے والے حملوں میں اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد 1,139 ہے اور جاں بحق ہونے والے فلسطینیوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ شہریوں کے رہائشی علاقوں، ہسپتالوں، سکولوں، ایمبولینسوں کے قافلوں اور عام شہریوں کی پناہ گاہوں پر اسرائیلی حملوں اور بمباری سے انسانی جانوں خاص طور پر معصوم فلسطینیوں کا انتہائی نقصان ہوا ہے۔ جنگ کی شدت بڑھنے کے ساتھ ہی جنگ کو روکنے کے لیے سفارتی کوششیں بھی ہورہی ہیں مگر نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہی بلکہ غزہ میں جنگ بندی کی جانب پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔ قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی کے بقول "گزشتہ چند دنوں میں پیٹرن واقعی بہت امید افزا نہیں ہے"۔ اور جس کی بنیادی وجہ امریکہ کی جانب سے فلسطین میں جاری انسانی مصائب کو کم کرنے کے لیے سفارت کاری کی کوششیں مخلصانہ جدوجہد کم اور دکھاوا زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔اگرچہ کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جنگ کے آغاز سے ہی مشرق وسطیٰ کے خطے کے کئی دورے کیے ہیں،جن کے دوران انہوں نے اسرائیلی حکومت کے حکام سے ملاقاتیں کی ہیں جبکہ اردن مصر،لبنان،قطر کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کر چکے ہیں۔ مگر فلسطینیوں کے حق میں کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا اور غزہ میں شہریوں کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے اسرائیل کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سیزفائر کرانے میں ناکام ہونے پر امریکہ کو علاقائی رہنماؤں کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔میدان جنگ میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں میڈیا رپورٹس کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج مصر کی سرحد پر واقع رفاہ کراسنگ کے علاقے پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے جہاں تقریباً 1.4 ملین لوگ پناہ لے رہے ہیں، رفاہ کو اسرائیل نے ابتدائی طور پر شہریوں کے لیے ایک "محفوظ زون" قرار دیا تھا۔ تازہ اطلاعات کے مطابق امریکہ الجزائر کی طرف سے پیش کی گئی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک نئی قرارداد جس میں غزہ میں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے کو ویٹو کرنے کا عہد کر رہا ہے۔دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے حماس کے جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے مطالبات کو"فریب"قرار دیا ہے جبکہ حماس اسرائیل کو جنگ بندی معاہدے کے حصول میں پیش رفت کی کمی کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ جنگ کو روکنے کے لیے سفارتی کوششوں میں ایک اہم پیش رفت جنوبی افریقہ کی طرف سے دیکھنے میں آئی جب جمہوریہ جنوبی افریقہ نے بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) میں ایک درخواست دائر کی، جس میں اسرائیل پر 1948ء کے نسل کشی کنونشن کے مطابق نسل کشی کا الزام لگایا گیا۔ 26 جنوری 2024 ء کو، ICJ نے جنوبی افریقہ کی جانب سے درخواست کردہ عارضی اقدامات پر فیصلہ سنایا۔ عدالت نے آئی سی جے کے آئین کے آرٹیکل 41 کے تحت عارضی اقدامات کا حکم دیا۔ ایسے احکامات ملکی قانون میں حکم امتناعی کے مترادف ہیں اور ان کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ متاثرین کے دعوی کردہ حقوق کی مزید خلاف ورزی نہ ہو، اور فریقین کے درمیان Status quoکو ناقابل واپسی طور پر تبدیل نہ کیا جائے۔ اسرائیل کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ "نسل کشی کنونشن کے آرٹیکل II کے دائرہ کار میں تمام کارروائیوں کو روکنے کے لیے اپنی طاقت کے اندر تمام اقدامات کرے۔" ان میں قتل بھی شامل ہے۔ سنگین جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچانا مکمل یا جزوی طور پر جسمانی تباہی کا سبب بننے والی شرائط عائد کرنا اور متاثرہ گروپ کے اندر پیدائش کو محدود کرنا۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کے حکم کردہ مخصوص عارضی اقدامات کی وضاحت اس کے فیصلے کے پیراگراف 78 سے 82 میں کی گئی ہے۔ عالمی عدالت نے اپنے حکم کے پیراگراف 79 میں، اسرائیل کو حکم دیا ہے کہ "غزہ کی پٹی میں فلسطینی گروپ کے ارکان کے سلسلے میں نسل کشی کے ارتکاب کے لیے براہ راست اور عوامی اشتعال انگیزی کو روکنے اور سزا دینے کے لیے اپنی طاقت کے اندر تمام اقدامات کرے۔" اسی طرح عالمی عدالت نے اپنے حکم کے پیراگراف 81 میں، اسرائیل کو ہدایت کی ہے کہ وہ کنونشن کے آرٹیکل II اور III کے تحت الزامات کے شواہد کو محفوظ رکھنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے، اور پیراگراف 82 میں، عدالت اسرائیل کو حکم دیا ہے کہ وہ ان اقدامات کے بارے میں رپورٹ کرے یعنی فروری کے آخر تک فیصلے کی تعمیل کرے۔ خطے میں امن کے قیام میں عالمی طاقت کے طور پر امریکہ کے کردار کا جہاں تک تعلق ہے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ بھی اپنے پیشروؤں کی طرح فلسطینیوں کو دبانے کے لیے صریحاً اسرائیل کی طرف مائل ہے۔ عام طور پر، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکی سیاسی دائرے کے اندر، ڈیموکریٹس جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور نسل پرستی کے مخالف ہیں۔ تاہم، بائیڈن انتظامیہ نے غزہ کی پٹی پر گزشتہ چار مہینے سے جاری اسرائیلی جارحیت پر جس قسم کا ردعمل دیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ فلسطینیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک میں ٹرمپ انتظامیہ کو پیچھے چھوڑ چکی ہے کیونکہ غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کو قبول کر لیا گیا ہے اور اسرائیل کی نسل کش پالیسیوں کی حمایت کی گئی ہے، غزہ کی مکمل ناکہ بندی کی منظوری دی گئی ہے جس سے بجلی، پانی، خوراک، ادویات کی فراہمی منقطع ہے جبکہ فلسطینی شہریوں کے روزانہ قتل عام کو درست قرار دیا گیا ہے،جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں حتٰی کہ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کے جنگی جرائم کی پردہ پوشی کی ہے اور اسرائیلی مظالم کے بارے میں فلسطینیوں کے دعووں کو چیلنج کرتی رہی ہے۔ حتیٰ کہ ممکنہ صدارتی امیدواروں کے درمیان اپنی "اسرائیل نواز" اسناد ثابت کرنے کے لیے مقابلہ جاری ہے۔ دوسری جانب امریکی قیادت غزہ میں اسرائیل کی جانب سے مسلسل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایک عالمی طاقت کے طور پر امریکہ کبھی بھی فلسطینیوں کے لیے مخلص نہیں رہا۔ اس لیے اب بھی امریکی حکومت کا ردعمل اسرائیل نواز ہے اور وہ فلسطینیوں کے مصائب کو کم کرنے کے لیے کوئی اہم قدم فائدہ نہیں اٹھا رہی ہے۔ بلکہ اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے گاجر اور چھڑی کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے یعنی حماس کا صفایا کرنا بالخصوص غزہ پر حماس کا کنٹرول ختم کرنا۔تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ نے عرب ممالک پر اسرائیل اور غزہ کے مابین جاری جنگ سے خود کو دور رکھنے کے لیے دباؤ ڈالا ہوا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے امریکہ کتنا پرعزم ہے اور دوسری طرف مصر، سعودی عرب اور اردن سمیت عرب ممالک بھی خطے میں حماس کے کردار کو محدود کرنا چاہتے ہیں جبکہ بے گناہ فلسطینی اپنے جان و مال کی قربانی پیش کرکے اس سب کی قیمت ادا کررہے ہیں۔