نائن الیون کے دو مینارے اور مسلمان حکمران مسلمانوں کے نصیبوں پر گرے تھے کہ دنیا کا ہر مسلمان زیر عتاب آ گیا ۔جب کہ عالم اسلام کے حکمران اپنے ہی عوام کے در پے آزار ہو گئے ۔ امریکا کی انسان دشمن پالیسیوں کے مقابل آواز بلند کرنے والے قابل گردن زدنی ٹھہرے اور امریکا کی ہاں میںہاں ملانے والے سر خرو ‘سر بلند اور دل پسند ۔ جموں و کشمیر میں ایک معرکہ برپا ہے جسے اس کے مکینوں نے بھارت کی مسلط کردہ کھلی جنگ کے عوض قبول کیا ۔ نہتے اور بے بس اہل جموں و کشمیر کو ہتھیار کوئی نہیں دیتا ‘ ان کے پاس فوج ہے نہ اسلحہ۔سات لاکھ مسلح بھارتی فوجی جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ اس خطہ بہاراں پر ٹوٹ پڑے تو نجیب قوم نے اپنے جگر گوشوں کے لہو سے کوچہ و بازار میں چراغ جلادیے ۔ غلامی کے اندھیاروں کے مقابل ڈٹنے والے اندھی بہری دنیا سے اپنا حق آزادی نہ منوا سکے تو اپنوں کے ہاتھوں ہی پٹنے لگے۔ ایک زچ کر دینے والا مرحلہ اس ریاست کے باشندوں کو در پیش ہے جن کے چھ لاکھ بچے ‘ بوڑھے مرد اور عفت مآب خواتین لہو میںنہاگئیں ۔وہ دہشت گرد ٹھہرے اور جو ٹینک ‘ توپ ‘ جہاز اور اندھے قانون کے ہمراہ ان پر پل پڑے ‘وہ امن پسند ‘ جمہوریت نواز اور مظلو م ما نے گئے۔ ہم دہشت گردی اور جہاد میں فرق بیان کرتے کرتے اس مقام پر آ گئے ‘جہاں سے کوئی بھی راہ منزل کی طرف نہیں جاتی ۔آج جموں و کشمیر کا مستقبل ایک ایسے تاریک دوراہے پر کھڑا ہے ‘جہاں کے باشندوں کو بھی اپنی منزل کی جانب جانے والا درست راستہ معلوم نہیں۔ آزاد کشمیر تحریک آزادی کا بیس کیمپ ہے ‘ لیکن اہل ریاست کو ایک جگر پاش حقیقت کا سامنا ہے کہ آزاد خطے کا کوئی بیوروکریٹ ‘ دانشور ‘ جج ‘سیکرٹری ‘ وکیل ‘ استاد‘ مشیر ‘ وزیر ‘ممبر کونسل ‘ ممبر اسمبلی ‘ وزیر اعظم حتیٰ کہ صدر ریاست بھی نہیں جانتے کہ جموں و کشمیر کے مسئلے کا کیا حل نکلنے جا رہا ہے ۔ جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کیا ہونے والا ہے ‘کون کرنے والا ہے ؟یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ ایک تاریک ترین رات کے بطن سے لہو کے چراغ جلا کر امید صبح کے پیامبر بن کر ابھرنے والے کشمیری بھی نہیں جانتے کہ بھنور میں پھنسی ہوئی اس نائو کا ناخدا کون ہے اور ان کا ساحل مراد کتنا دور ہے ؟ پاکستان مدینہ کی اسلامی ریاست کے بعد دنیا کا پہلا نظریاتی ملک ہے ‘جس کے ساتھ امت کی امیدیں وابستہ ہیں ۔ ایسے ہی اسرائیل خطہ ارض پر یہودی نظریاتی مملکت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پون صدی سے زائد عرصے کے دوران اسرائیل اور بھارت پاکستان کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے رہے ہیں۔ ان کی مشترکہ کمانڈوز مشقیں ایک طرف ‘ سری نگر کے برفستانوںمیں بر سر پیکار مجاہدین کے مقابل اسرائیلی فوجوں کی معرکہ آرائی کس سے پوشیدہ رہی ہے ؟اسرائیلی اسلحے کے ڈھیر اور اسلامیوں کے سینے میں اترنے والی گولیوں کا موجد یہی اسرائیل ہی تو ہے جس کی ساری تگ و تاز ایک ہدف کے گرد گھومتی ہے کہ کسی طرح مسلم نامی مخلوق کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے ۔بلاد شام کے جنوب مغرب میں ایشیا اور افریقہ کے سنگم پر واقع فلسطین ‘ایشیائی اور افریقی مسلمانوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کے ایک شہر پر آگ و خون کا ایک معرکہ اپنی انتہائوں کو چھو رہا ہے ۔ جس کی کوئی صبح ایسے طلوع نہیں ہوتی کہ اس کی بیٹیاں اور بیٹے خون میں ڈوب کر سر خرو نہیں ہوتے ہوں‘ کوئی شام ایسی نہیں آتی جب ان کے گھر راکھ و خاک کا ڈھیر نہیں بن جاتے۔فلسطین کے پیرو جواں مسجد اقصیٰ کے گرد پروانوں کی طرح نچھاور ہو رہے ہیں اور مسلمان حکمران مجرمانہ خاموشی میںغرق ہیں ۔ ایک قبرستان جیسی خاموشی جس کے ٹوٹنے کے امکانات کم ہو تے جاتے ہیں۔پیغمبروں کی سر زمین ‘ اور مسکن ۔ نبی اکرم ﷺ نے اس کو یہ سعادت بخشی کہ اﷲ کے حکم سے مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ اور وہاں سے عرش تک کا سفر معراج کیا ۔ ارض فلسطین پر قبلہ اول میں اﷲ نے تمام انبیاء ؑکی ارواح کو جمع کیا اور حضور ﷺ نے ان کی امامت کرائی ۔ذلتوں اور رسوائیوں کی سیاہ رات سے روشنی کی کوئی کرن نہیں پھوٹ رہی ہم سب ارض فلسطین میں کٹتے مٹتے اور سرخرو ہوتے مسلمانوں کو ٹی وی کی سکرین پر دیکھ رہے ہیں ۔ ہمارے حکمران اور قائدین بھی یہ منظر دیکھ رہے ہیں ۔عرب و عجم کے حکمران ‘ قائدین اور ۵۷ اسلامی ملک جو ایک قبرستان کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔ فلسطین کے ساتھ مسلمانون کی روحانی اور جذباتی وابستگی ہے ‘ یہودیوں کی تمام نفرتیں ہمارے لیے اور تمام منصوبے ہمارے خلاف ہیں۔ قرآن کہتا ہے ۔’’ اے مومنو!یہود و نصاریٰ کو دوست مت بنائو‘ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ تم میں سے جو کوئی ان کو دوست بنائے وہ ان میں سے ہے۔بے شک اﷲ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ (المائدہ )عربوں کی روایتی غیرت کہاں گئی ؟آنکھیں بند کیے خطرے کب ٹلتے ہیں۔سری نگر ہو یا غزہ ،ہمارا مستقبل ہزار پردوں میں پنہاں ہے ۔ جس کا ابھی کوئی نام نہیں ‘ لیکن ایک لمحہ آئے گا جب اس اندھیرے نے مٹ جانا ہے ۔ اندھیرے تو مٹ کر ہی رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم تاریخ میں کس نام سے پکارے جائیں گے ؟اس بہتے لہو کی کیا قیمت ہے ؟ آج نہیں توکل ،کس کی گلیاں غزہ کا نقشہ پیش کریں گی؟ کیاسب ایک ایک کر کے مارے جائیں گے؟ غزہ ہو یا سری نگر بغداد ہو یا کابل ہم اس عہد کم ظرف میں جی رہے ہیں جس میں ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔