پاکستان میں زرعی شعبہ ہمیشہ سے ہی اپنی اہمیت کی وجہ سے توجہ کا مرکز رہا ہے مگر مختلف کوششوں، متنوع اقدامات، اور زرعی انقلابات کے نعروں کے باوجود، اس شعبے کے گہرے مسائل کو سمجھنے کے لیے مخلصانہ کوششوں کا فقدان رہا۔یہی وجہ ہے کہ زرعی شعبہ کی صلاحیت سے مکمل استفادہ نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی مستقبل قریب میں کئے جانے کی اُمید ہے ۔اس شعبہ سے بھرپور استفادکے لیے اس کو درپیش پیچیدگیوں کی چھان بین بہت ضروری ہے۔اسی لئے ہم یہاں کچھ ایسی ترجیحات کا خاکہ پیش کر رہے ہیں جن پر توجہ سے ایک بہتر کل کے امکان کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ تازہ زراعت شماری کے بغیر، زرعی ترقی اور اس شعبے کی حرکیات کا درست اندازہ لگانا انتہائی کٹھن ہے چنانچہ اس ضمن میں سب سے پہلی ترجیح کے طور پر زراعت شماری اور جانور شماری کے اعداد و شمار کو اپ ڈیٹ کیاجانا چاہیے۔ اب تک کی تمام تر منصوبہ بندی ایسے اعداد و شمار پر مبنی ہے جو زراعت کے لیے تقریباً 14 سال پرانے جبکہ مویشیوں کے حوالے سے 18 سال پرانے ہیں۔ یہ پرانا ڈیٹا موثر منصوبہ بندی اور حکمت ِعملی کی تشکیل میں اور زرعی شعبے کو جدید بنانے کی کوششوں میںایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک نئی زراعت شماری کی بازگشت سننے میں آ رہی ہے، اگر یہ اقدام عملی شکل اختیار کر لیتا ہے، تو اس کی تنظیم وتشکیل کو روایتی انتظامی حدود سے زرعی ماحولیاتی زونز میں منتقل کر کے اس کی افادیت کو بہت زیادہ بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے اقدام سے بلاشبہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونیوالے سنگین نتائج سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔ مزید یہ کہ ان اعداد و شمار کا اجراء ترجیحی بنیادوں پر ہر پانچ یا دس سال بعد لازمی طور پر کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ تحقیق و ترقی، وسائل کی تقسیم، پالیسی سازی اور سب سے بڑھ کر زرعی شعبے میں انقلاب برپا کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ دوسری بنیادی ترجیح کے طور پر پیداواری صلاحیت پر توجہ دی جانی چاہیے۔ پاکستان عالمی زراعت میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، اکثر فصلات کی پیدوار کے حوالے سے ہمارا شمار دنیا کے دس بہترین ملکوں میں ہوتا ہے مگر فی ایکڑ پیدوار کے لحاظ سے ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں ۔ مثال کے طور پر، ہم عالمی سطح پر گندم پیدا کرنے والا 7 واں سب سے بڑا ملک ہیںمگر پیداواری صلاحیت میں 62 ویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح چاول کی پیداوار میں ہم 13 ویں نمبر پر، لیکن پیداواری صلاحیت میں 54 ویں نمبر پر ہیں۔ دراصل یہ کم پیداواری صلاحیت زمین کی موجودہ حرکیات، ان پٹ منڈیوں کے مسائل، خاص طور پر بیجوں اور کھادوں کے مسائل سے جڑی ہوئی ہے۔ مزید برآں یہ گندم کی امدادی قیمت جو پیداواری منڈیوں میں بڑے بگاڑ کا سبب ہے،اجناس اور پھلوں کو ذخیرہ کرنے کی ناکافی اور کم معیاری سہولیات، اور فوڈ پروسیسنگ سے متعلق کاروباری مواقع کی کمی سے پیدا ہوتی ہے۔ آئیے ان مسائل کو ترتیب وار سلجھانے کو کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کا زرعی منظر نامہ چھوٹی اور بکھری ہوئی زمینوں پر مشتمل ہے، جس کی وجہ سے کسانوں کے لیے کاشتکاری کی جدید تکنیکوں، میکانائزیشن، اور وسائل کے موثر انتظام کو اپنانا مشکل ہو جاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، پیداواری صلاحیت کم رہتی ہے۔ پاکستان کو اس مسئلے کے تکنیکی حل کے طور پر زرعی زمینوں کی تنظیمِ نو پر غور کرنا چاہیے۔ زرعی زمینوں کا اشتمال یا تنظیمِ نو،زرعی زمین کے انتظام کا ایک ایساطریقہ کار ہے جس میں پلاٹوں یا مختلف ٹکڑوں کی تعداد کو کم کر کے بڑے، زیادہ موثر، اور زیادہ منطقی شکل والی زمین میں بدل دیا جاتا ہے۔اس ضمن میں قوانین بھی بہت واضح ہیں ۔تاہم، پاکستان میںاس کے نفاذ کے لیے کوئی خاطر خواہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ اس تبدیلی پر غور کرنے سے ایک زیادہ خوشحال اور پائیدار زرعی مستقبل کی بنیاد قائم ہوگی۔ ان پٹ مارکیٹوں کے ضمن میں، بیج ایک اہم اور بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔لیکن ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ متنوع اقسام اور تصدیق شدہ بیجوں کی پیداوار میں اضافے کے باوجود تمام فصلوں کے لیے مطلوبہ بیج کا صرف 37 فیصد تصدیق شدہ یا معیاری بیج دستیاب ہے۔ پوری صنعت متعدد مسائل سے گھری ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر، بیج کی تصدیق کے طویل ریگولیٹری عمل میں متعدد سرکاری محکمے شامل ہیں ۔جوکہ بے شمار اخراجات اور تاخیر کو جنم دیتے ہیں جس سے نجی شعبہ بھی اس حوالے سے سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچاتا ہے ۔ مزید یہ کہ نجی شعبہ مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے منظوری کے لیے سرکاری حکام کے ساتھ اپنے متعارف کردہ بیجوں کے اشتراک سے گریزاں ہے۔ نتیجتاً، کچھ کمپنیاں سرکاری منظوری کے بغیر اقسام جاری کرتی ہیں۔جس کا نتیجہ مارکیٹ میں کم معیار ی بیجوں کی صورت میں سامنے آتا ہے جو بالآخر کم زرعی پیداوار میں ڈھل جا تاہے۔ لہٰذا، بیج کے شعبے کو مرکزی طور پر منظم قسم کی منظوری کے نظام سے آزاد منڈی کے طریقہ کار میں بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ نجی شعبہ کو سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنے کے لیے بیج سرٹیفیکیشن کے طویل نظام کو ختم کریں۔ بیج کی پیداوار کے کاروبار میںسرکاری شعبہ کی شمولیت اور قیمتوں کے ضابطے کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم اپنے اوسط کسانوں کی پیدوار کو اپنے ہی بہتر پیدوار والے کسانوں تک بڑھانے میں کامیاب ہوجائیں تو صرف 5بنیادی فصلات سے ہی حاصل ہونیوالے فوائد کا تخمینہ 1722ارب روپے ہے۔ (جاری ہے)