شاید کسی کو غور کرنے کی مہلت ہی نہیں کہ زندگی بھڑک اٹھنے اور بجھ جانے کا نہیں بلکہ سلگتے رہنے کا نام ہے۔ ہر طرف دیکھیں دھینگا مشتی کا ایک منظر ہے۔ بات اب گالم گلوچ سے آگے اسمبلی میں مار کٹائی تک پہنچ گئی ہے۔ پارٹیوں کے میڈیا سیل اور کیا کیا خرافات اللہ کی پناہ’’ دھما چوکڑی‘‘مچھلی بازار کا سا شور' کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی آخر کب تک۔ وہی بے یقینی' وہی مایوسی' وہی اندیشے وہی خطرات سب سے متحرک اور سب سے توانا عمران خاں کی آواز ہر طرف گونج رہی ہے۔ ان کے مقابلے میں اب مریم نواز میدان میں آگئی ہیں۔ یقینا وہ بھی اس سفر میں جوں جوں آگے بڑھیں گے۔ لوگ بتدریج ان کے قافلے میں شریک ہوتے جائیں گے۔مقابلے میں بتدریج تیزی اور تندہی آتی جائے گی۔لیکن مریم کیلئے ضروری ہے کہ حالات کے تحت عوامی مسائل اور عام لوگوں کی مشکلات کے حوالے سے اپنا ایک مربوط منظم اور قابل عمل بیانیہ عوام کے سامنے پیش کریں۔ لوگوں کو یقین دلائیں کہ ان کی جماعت اس بار کچھ نیا کرکے دکھائے گی اور ان کے چچا فوری عوامی ریلیف کیلئے روزانہ کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ کرتے چلے جائیں۔ عمران کا عوامی سطح پر مقابلے کیلئے انہیں کچھ نیا بیانیہ نئے خدوخال کے ساتھ دینا پڑے گا۔ کچھ کرکے دکھانا پڑے گا۔ مثلاً کراچی میں فوری طور پر چند سو بسیں سڑکوں پر لے آئیں۔ ملک میں چینی' آٹا اور گھی کی قیمتوں میں حقیقی معنوں میں کمی کریں۔ قیمتوں کو مزید بڑھنے سے روکنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں۔ ملک میں لوڈ شیڈنگ کو روکنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگادیں۔ ایسا ریلیف جو عوام کو نظر آئے محسوس ہو۔ آپ عمران خان اور ان کی جماعت پر تنقید سے زیادہ ان پر ریاستی جبر سے زیادہ اپنی کارکردگی پر زور دیں۔ قدرت نے جو بھی اور جتنا بھی وقت آپ کو دیا ہے اس میں کچھ ایسا کردکھائیں کہ جو آئندہ انتخابات میں آپ کی کامیابی کی ضمانت بن سکے۔ کیونکہ عمران خان کے تیزوتند اور جذباتی بیانیے کے سامنے حکومت کو عوامی ریلیف کا بیانیہ دینا پڑے گا۔یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان خود اپنے موقف اور بیانیے کی تردید کررہے ہیں۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں کہہ رہے ہیں کہ انہیں 180 دن پہلے علم تھا کہ اپوزیشن ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لارہی ہے۔ انہیں اپوزیشن کی اس حوالے سے تمام سرگرمیوں کا علم تھا۔ اس لئے وہ چاہتے تھے کہ جنرل فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں۔ ظاہر ہے عمران خان کا موقف ہے کہ پاکستان کی پرائم انٹیلی جنس ایجنسی ان کے خلاف تمام سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ عمران خان یہ تذکرہ جولائی 2021ء کا کررہے ہیں۔ اس وقت امریکی سفارتکار کی پاکستانی سفیر سے دھمکی آمیز گفتگو کا دور دور تک کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ ظاہر ہے تمام شواہد' حالات و واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ حزب مخالف کی جماعتیں پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے کیلئے اس وقت سے بھی پہلے سے سرگرم تھیں۔ اس کے علاوہ عمران خان اپنے ایک اور انٹرویو میں اپنے اس موقف کی بھی تردید کررہے ہیں جب انہوں نے کہا تھا کہ وہ جنرل فیض حمید کو اس لئے انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ رکھنا چاہتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ امریکیوں کے افغانستان سے انخلاء کے بعد پڑوسی ملک میں جو دھماکہ خیز صورتحال موجود ہے اور جس تیزی سے حالات میں تغیر و تبدل پیدا ہورہا ہے،جنرل فیض اس ساری صورتحال کے ہر پہلو سے باخبر ہیں اور وہ اس حوالے سے بہتر طور پر صورتحال سے نبردآزما ہوسکتے ہیں۔ پھر عمران خان کے وہ بیانات اور تقاریر بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جس میں وہ اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اپوزیشن ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی اور وہ اپنے چنگل میں خود پھنس گئی۔ عمران خان کے اقتدار سے محروم ہونے سے قبل کے اگر تمام بیانات ان کے موقف اور دیئے جانے والے دلائل کا جائزہ لیں یہ بات بالکل واضح طور پر دکھائی دیتی ہے کہ عمران خان وقت کے ساتھ اور بدلتے حالات کے تحت اپنا بیانیہ بدلتے رہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اینٹی امریکن اور سازش کے بیانیے نے اپنے حکومتی دور میں کارکردگی کے حوالے سے گرتی ساکھ کو نہ صرف سہارا دیا بلکہ انہیں عوامی سطح پر ناقابل یقین حمایت بھی حاصل ہوئی۔ عمران اس اعتبار سے بھی قسمت کے دھنی ثابت ہوئے کہ عملی طور پر انہوں نے امریکیوں کے خلاف کچھ نہ کرکے بھی ان جذبات کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹا اور یہ بھی طے ہے کہ جذبات ہمیشہ بکتے ہیں۔ انہوں نے بڑی ذہانت اور چالاکی سے اپنے بیانیے میں بھٹو کے ساتھ امریکیوں کی مخاصمت اور ان کے انجام کی جذباتی کیفیت کو نتھی کرکے عام لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ امریکیوں نے انہیں بھی اس جرات کی سزا دی ہے، جس اولوالعزمی اور حب الوطنی کی سزا بھٹو نے پائی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان تقریر کرنے کا فن جانتے ہیں۔ وہ اپنے موقف اور دلیل کو سچ ثابت کرنے کیلئے ایک زبردست مقرر کی طرح کہیں کی کڑیاں کہیں سے ملادیتے ہیں۔ پھر ان کی سوشل میڈیا سپورٹ ہر زاویہ نگاہ سے ان کی بات کو سچ ثابت کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگادیتی ہے۔ پھر بار بار اس کی اتنی بار گردان کی جاتی ہے کہ خواہ ان کی بات یا موقف درست ہو یا غلط وہ سچ نظر آنے لگتا ہے۔ ان کی یہ تکنیک اب تک کامیاب ہے۔ اس لئے وہ اقتدار سے باہر آجانے کے باوجود بدستور موجودہ حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹیاں بجارہے ہیں۔ اس کا ایک سیدھا سادا طریقہ تو یہ ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے ذریعے کوئی اعلیٰ اختیاراتی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیدے جو اس بات کا تفصیل سے جائزہ لے کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف امریکیوں نے کس انداز سے سازش کی۔ حکومت عمران خان سے کہے کہ اگر اس کمیشن نے اپنی یہ فائنڈنگ دی کہ عمران کو ہٹانے میں امریکیوں نے سازش کی تھی تو شہباز شریف فوری طور پر اسمبلیاں تحلیل کرکے نئے انتخابات کا اعلان کردیں گے۔ بصورت دیگر اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی۔ یا پھر یہ اختیار نئی حکومت کا ہوگا کہ وہ کب انتخابات کرائے۔ میرے خیال میں کم از کم یہ وہ نکتہ ہے جس پر دونوں فریق اتفاق کرسکتے ہیں۔ ساتھ میں جب تک کمیشن کی رپورٹ نہ آئے باہم انڈر اسٹینڈنگ سے ایک دوسرے کے خلاف سیز فائر کردیا جائے۔ اس سے غیر یقینی کے بادل بھی چھٹ سکتے ہیں اور مکدر فضا کا ٹمپریچر نیچے آسکتا ہے۔ ورنہ ایک دوسرے کے خلاف جلسے کرنے' الزامات لگانے' غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے سے نہ صرف سیاسی استحکام آسکتا ہے جو ملک کی معیشت کے پہیے کو چلانے میں کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے اگر سپریم کورٹ آگے بڑھ کر سوموٹو لے سکتی ہے تو اسے اس صورتحال کا ڈیفیوز کرنے کیلئے ایک موثر کردار ادا کرنا چاہئے' کیونکہ جمہوریت کے نام پر مادر پدر آزادی' ہنگامہ آرائی اور خونریزی والی دھمکیاں دینے والی سیاست کی آزادی ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی آگے آکر دونوں فریقوں کو سیاسی استحکام کی ضرورت پر ہر قیمت قائل کرنا چاہئے۔ کیونکہ یہ غیر یقینی اور ٹکراؤ کی سیاست سیاستدانوں کو کچھ دے سکے یا نہ دے سکے۔ ملک کا بیڑہ غرق ضرور کردے گی۔(جاری ہے)