غیر ملکی قرض کوئی معمولی مسئلہ نہیں، قومی سلامتی سے جڑا یہ انتہائی اہم موضوع ہے، جس کے ساتھ بہت سے سنگین اور سنجیدہ سوالات جڑے ہیں۔مثال کے طور پر قرض کب لیا جائے گا،کیوں لیا جائے گا،کہاں خرچ کیا جائے گا، کیا واقعی قرض لینا ضروری ہے،کیا واقعی ضرورت کے مطابق قرض لیا جا رہا ہے، اس کی واپسی کا قابل عمل فارمولا کیا ہے؟سوال یہ ہے کہ اس کے بارے میں پاکستا ن کا آئین کیوں خاموش ہے؟ان اور ان جیسے ڈھیروں سوالات کے تعین کا فارمولا کیا ہے؟ کیا ایک وزیر خزانہ یا کابینہ کے چند ’ غیر فعال اور برفاب وجود‘ اضطراری حالت میں بیٹھ کر قوم کے مستقبل رہن رکھنے میں مکمل آزاد ہیں یا اس سارے معاملے میں آئین بھی کوئی رہنمائی فرماتا ہے؟ یہ سوال میرا نہیں، یہ بیرسٹر عمر گیلانی صاحب کا سوال ہے۔ بیرسٹر عمر گیلانی،جناب جمیل حسین قریشی اور جناب حیدر سید کا شمار اسلام آباد کے ان چند جوان وکلاء میں ہوتا ہے جو قانون کی لگی بندھی اطاعت کے حصار سے نکل کر فلسفہ قانون ( جورسپروڈنس) کی دہلیز پر دستک دینے کا ذوق بھی رکھتے ہیں اور صلاحیت بھی۔ میں ان کی اسی صلاحیت، قابلیت اور اور ذوق کا مداح ہوں ۔ قریشی صاحب تو رفیق کار ہیں،باقی دونوں حضرات سے میری شناسائی معروف قانون دان برادر مکرم بابر ممتاز کے ذریعے ہوئی ۔حیدر سید صاحب سے تو صرف ایک ملاقات ہوئی جب وہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام میری کتاب ’ پس قانون ‘ کے تقریب میں تشریف لائے اور میری بد قسمتی اور سستی کہ ان سے رابطہ ابھی سوشل میڈیا تک ہی محدود ہے اور تشنہ ہے لیکن برادر محترم ڈاکٹر مشتاق احمد کے حلقہ احباب کے ’ مشترکات‘ کی وجہ سے عمر گیلانی صاحب سے ملاقات رہتی ہے۔مجھے یہ اعتراف کرتے ہوئے مسرت ہو رہی ہے کہ وہ کسی ملاقات میں مایوس نہیں کرتے۔کوئی نہ کوئی ایسا نکتہ نکال لاتے ہیں،جو ان کے بارے میں قائم میری رائے کو مزید پختہ کر دیتا ہے۔ قدم قدم پر ہمارے ہاں آئین کی سربلندی اور آئین کی بالادستی کے رجز پڑھے جاتے ہیں لیکن جب بھی کسی اہم معاملے پر آئین سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تو ناکامی ہوتی ہے۔آئین کا احترام سر آنکھوں پر لیکن کچھ عرصے سے مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے آئین پر بھی از سر نو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔چند اقوال زریں تو ہم نے لکھ چھوڑے ہیں لیکن اس سے بات نہیں بن پا رہی۔ بات تب ہی بنے گی،جب آئین کو ایک زندہ دستاویز بنایا جائے گا اور وہ ہمارے موجود مسائل کے بارے میں کوئی رہنمائی فرمائے گا۔ تعبیر کے نام پر ابہام پیدا نہیں کرے گا بلکہ ابہام دور کرے گا۔ قانون کے طالب علم کے طور پر آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے کے باوجود میرے جیسے طالب علم کی رائے یہ ہے کہ اس دستاویز پر کامل عمل درآمد سے بھی کچھ نہیں ہو گا جب تک کہ اس پر نظر ثانی نہ کی جائے اور اسے اپنے دور سے ہم آہنگ نہ کیا جائے۔ بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن ایک ہی مثال پر اکتفا کرتے ہیں،جو عام فہم ہے۔آئین میں بنیادی انسانی حقوق کا ایک باب ہے۔ گن گن کر بتایا گیا ہے کہ شہریوں کو فلاں فلاں حق ملے گا۔ بظاہر آدمی پڑتا ہے تو سر دھنتا ہے کہ سبحان اللہ کیا فلاحی بندوبست ہے۔لیکن ہر حق کے آخر میں ایک سطر ہے کہ یہ حق موجود قوانین سے مشروط ہو گا۔اب قوانین تو دور غلامی کے ہیں تو 1973ء کے آئین میں دیے گئے حقوق اگر 1860ء کی دہائی کے نو آبادیاتی قوانین سے مشروط کر دیے جائیں تو اس کا مطلب کیا ہے؟اس کا مطلب ہے کہ عزیز ہم وطنو!حقوق انسانی لکھے ہوئے ضرور ہیں لیکن زیادہ خوش نہ رہنا،ملنا ایک بھی نہیں ہے۔حق آزادی رائے سے لے کر جائیداد کے تحفظ کے حق تک ،ہر حق نو آبادیاتی قانون سے مشروط ہے اور نو آبادیاتی قانون ایسے کسی حق کو ’’عملا ‘‘ مانتا ہی نہیں۔ اسی طرح کہیں آئین میں ناقابل عمل قسم کی شرائط لکھ دی گئی ہیں جیسے اراکین پارلیمان کی اہلیت کا معیار، جو غیر حقیقی ہے اور مبہم بھی ہے اور جب یہ شرائط پڑھ کر آدمی پارلیمان جاتا ہے تو سامنے کا منظر اسے گدگدا دیتا ہے کہ قدرت کتنی مہربان ہے اس ملک میں قطار اندر قطار ایسے اللہ کے ولی موجود ہیں جو ان محیر العقول شرائط پر پورا اتر کر پارلیمان میں جلوہ افرز ہوئے ہیں جن کا ذکر آئین میں کیا گیا ہے۔ بیرونی قرض معیشت کا ایک ایسا پہلو ہے، جس نے معاشرے کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ایسے میں اس سواال کی معنویت میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ اس بارے میں آئین کیا کہتا ہے؟ کابینہ کے دو چار سینیئر اراکین ، وزیر خزانہ اور چند لوگ مل کر جب اور جو چاہیں فیصلہ کر لیں ،انہیں اس کی آزادی ہے یاآئین نے کوئی چیک اینڈ بیلنس قائم کیا ہے اور کوئی اصول وضع کر رکھے ہیں؟وہ اصول ہیں تو کہاں ہیں؟ نہیں ہیں تو کیوں نہیں ہیں؟ ایک حکومت قرض لے لیتی ہے اور بعد میں آنے والے دہائی دیتے ہیں۔ پھر شور مچانے والا اقتدار میں آ جاتا ہے اور وہ بھی رہی سہی کسر پوری کر دیتا ہے۔ یہ لوگ تو چند سال گزار کر چلے جاتے ہیں لیکن ان کے اس ایڈ ہاک ازم کی قیمت پاکستان اور اس کے عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ قرض جب لیا جا رہا ہے تو کیا واقعی اس کی ضرورت ہے؟ کیا قرض اور اس ضرورت کے درمیان واقعی توازن موجود ہے؟ کیا قرض ناگزیر ہے یا اپنی حکومت کے چند برسوں میں قرض لے کر غیر پیداواری منصوبوں میں برباد کر کے نیم خواندہ ووٹر کی ہمدردی لینا اصل مقصد ہے، کہاں طے ہو گا کہ قرض لینے کا فیصلہ شفاف ہے اور یہ کہاں خرچ ہونا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ان سوالات کا جواب کون دے سکتا ہے؟ ان امور کا تعین کیسے ہو گا؟ یہ چیز کبھی پارلیمان میں زیر بحث کیوں نہیں آ تی کہ قرض لیتے وقت آئی ایم ایف ہو یا کوئی ڈونر ادارہ ، اس کی شرائط کیا ہیں؟ان شرائط کا فائدہ ہے یا نقصان؟ کیا جمع تفریق میں فائدہ زیادہ ہو گا یانقصان؟ یہ امور آج تک پارلیمان میں زیر بحث نہیں آئے اور آئین ان امور میں مکمل طور پر خاموش ہے۔ یعنی آئین کی موجودہ شکل میں فیصلہ سازوں نے اپنے لیے ’ کلین چٹ‘ رکھی ہوئی ہے کہ جب ، جتنا اور جن شرائط پر ان کا جی چاہے قرض لینے کی کوشش میں مصروف ہو جائیں۔ اس ملک کے آئینی اور پارلیمانی بندوبست میں ان پر کوئی قدغن اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ گوارا کیا جانا چاہیے کہ اتنے اہم مسئلے میں آئین لاتعلق رہے؟فیصلے پہلے ہو جائیں اور ان کی تکمیل میں پارلیمان سے کہا جائے کہ بس اب منی بجٹ قبول فرما لو۔