ثروت حسین ستر کی دہائی کی وہ منفرد آواز ہیں جنھوں نے اردو غزل کو وقار بخشا اور جدید استعاروں اور تلمیحات سے اردو غزل کا دامن وسیع تر کیا۔ ثروت فطرت کا شاعر ہے‘اس کا دن اور رات‘اس کی پسندیدہ آوازیں اور استعارات و علامتیں،سب کا تعلق اسی دھرتی سے ہیں۔ثروت ہر اس انسان کی آواز بنتا ہے جس کا تعلق اس کی مٹی سے ہے اور جو اس معاشرے میں کہیں فراموش کر دیا گیا ہے‘ثروت بھولے ہوئوںکو یاد کرتا ہے‘ان کی آواز میں آواز ملاتا ہے‘ان کے دکھوں کو محسوس کرتا ہے‘ان کی خوشیاں خود جیتا ہے اور ان پر نظمیں کہتا ہے‘شعر لکھتا ہے اوران کا سہارا بنتا ہے‘ثروت سب کا سانجھا شاعر ہے ۔ عدنان بشیر کی محنت قابلِ داد ہے کہ انھوں نے ایک طویل عرصہ جدوجہد کی‘ثروت کی ذاتی ڈائریوں‘ان کے خطوط‘ان کی نثری تحریروں سے لے کر ان کے دوست احباب تک‘سب سے رابطہ کیا اور ’’فاتح کا گیت‘‘کی تدوین عمل میں آئی۔کلیاتِ ثروت حسین ۲۰۱۵ء میں چھپی تھیں جس میں ثروت کے تین مجموعے (’آدھے سیارے پر‘،’خاک دان ‘اور ’ایک کٹورا پانی کا‘)اور ان کی طالب علمی کے دور کا کلام (۱۹۶۹ئ۔۱۹۶۸ئ) ’نئے دن کا سورج‘ شامل کیا گیا تھا۔ایم فل کے تحقیقی مقالے کے دوران عدنان کو محسوس ہوا کہ ثروت کا غیر مدون کلام بھی اس قدر ہے کہ الگ کتاب شائع ہو سکتی ہے لہٰذا وہ اس کام میں جُت گئے،کئی سال مسلسل محنت ِ شاقہ کے بعد یہ اہم کتاب مارکیٹ میں آئی ‘ محبانِ ثروت کی طرف اس کام کی پذیرائی ہو رہی ہے۔کتاب کا انتساب اردو کے اہم مترجم اور شاعر محمد سلیم الرحمن کے نام کیا گیا ہے ‘قارئین کی سہولت کے لیے کتاب کی ابواب بندی کر دی گئی ہے ‘’قندیل‘ کے عنوان سے حمدیہ و نعتیہ اور سلاموں کوکلام یکجا کیا گیا،’طلسمات‘ کے نام سے غزلیات،’نقرئی گھنٹیاں‘ کے نام سے نثری نظمیں،’آب کٹورا‘میں آزاد‘مختصر اور معریٰ نظمیں،’طائر نامہ‘ میں دوستوں کے لیے نظمیں اور ’ست رنگ‘میں لوک رنگ، بیت، بھجن، وائی، کافی، پنجابی و سندھی کلام کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ ثروت شناسی میں یہ کام (فاتح کا گیت) انتہائی اہم ہے‘ثروت نے بلاشبہ اردو شاعری کو متنوع موضوعات کا ایک خزانہ عطا کیا ‘فطرت سے محبت ہو یا معاشرے کے پسماندہ طبقے کے دکھوں کا نوحہ‘سانحہ مشرقی پاکستان ہو یا دھرتی کو ملنے والا کوئی ادنیٰ دکھ‘ثروت نے سب پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔شاعری ہو یا نثریں تحریریں ، دوستوں کو لکھے گئے خطوط ہوں یا نجی محافل کی گفتگوئیں،ثروت ہر جگہ اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔انھوں نے اپنی ادبی زندگی کے آغاز میں ہی مختلف اصناف میں اپنی صلاحیتوں کو منوا لیا تھا‘جہاں وہ بہترین غزل گو تھے ‘وہاں وہ منفرد نظم نگار بھی تھے۔انھوں نے نثری نظم میں انتہائی منفرد تجربات کیے‘اپنی آواز کو سب سے منفرد رکھا اوراپنا راستہ خود بنایا ۔انھوں نے وائیوں،کافیوں،بیت اور کئی دوسری مقامی زبانوں کی اصناف سخن کو بھی اپنایا۔نظمیں بھی لکھیں‘حکایتیں اور افسانے بھی، ایک ناول کا پلاٹ بھی ترتیب دے چکے تھے جس کے خاکے‘واقعات اور کردار تک تخلیق کیے۔ثروت کی ہمہ جہت زندگی کی کہانی ’’فاتح کے گیت‘‘میں برادر عدنان بشیر نے انتہائی عرق ریزی سے محبانِ ثروت تک پہنچائی ہے۔وہ پیش لفظ میں اس بات کا ذکر کر چکے کہ غلام حسین ساجد نے ثروت کی آواز کو ستر کی دہائی میں دو کیسٹس میں ریکارڈ کیا تھا جن میں ایک کیسٹ تو عدنان بشیر نے حاصل کر کے اسے سی ۔ڈی میں منتقل کروایا اور بعد ازاں یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دی جبکہ دوسری کیسٹ کی ابھی تک تلاش جاری ہے۔ یہ کیسٹ غلام حسین ساجد سے ثروت حسین کے قریبی دوست محمد خالد نے لی تھی جس تک محقق کی رسائی تاحال ممکن نہیں ہو سکی۔ اگر ثروت کا مزید کلام جس کی تلاش جاری ہے‘مل سکا تو مذکورہ کتاب(فاتح کا گیت) کی ضخامت و اہمیت دو چند ہو جائے گی۔آپ ثروت کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں: ایک پرچھائیں ہات چھڑا کر آگے آگے چلتی ہے باغیچے کی گیلی مٹی کیا کیا رنگ بدلتی ہے تم کو دیکھ کے یوں لگتا ہے جیسے دھوپ نکل آتی ہے رنگ تو پہلے بھی تھے لیکن اتنے رنگ کہاں تھے پہلے جلتے ہیں اب بھی ہونٹ،دھڑکتا ہے اب بھی دل ثروت وہ ایک رات تو کب کی گزر گئی فضائے نیلگوں کی وسعتوں میں راکھ ہونے تک ستارہ از کراں تا بہ کراں حیرت میں رکھتا ہے مجھ سے ناراض بہت ہیں یہ خدایانِ زمیں جرم اتنا ہے کہ حصے کا ثمر چاہتا ہوں لہلہاتی خواہشوں کے رنگ دھیمے پڑ گئے بادلوں کے شور سے دیوار ہی کالی نہیں اور ایسے بہت عمدہ اشعار اور نظمیں ’’فاتح کا گیت‘‘ میں موجود ہیں‘چار سو صفحے کی یہ کتاب ہے۔آپ بھی اس کتاب کو خریدیں اور ثروت کے شعروں سے زندگی کا حسن کشید کریں۔