نومبر2017ء میں راولپنڈی کے علاقے فیض آباد میںتحریک لبیک پاکستان کی جانب سے ایک دھرنا دیا گیا جس کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میںتین ہفتوں تک آمد و رفت متاثر ہوئی اور حکومتی رٹ کی قلعی بھی کھلی گئی۔ یہ دھرنا اس لیے دیا گیاکہ آئینی ترمیم الیکشن بل 2017 میں حلف نامہ کے الفاظ کو بدل دیا گیا تھا۔ مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وزیر قانون زاہد حامد سے استعفیٰ لے۔ حکومت نے 25 نومبر کو ایک آپریشن کیا، جس کے بعد ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے اور حکومت مزید دباؤ میں آگئی،جس کے بعد کئی شہروں کی مین شاہراہوں کو مظاہرین نے بند کر دیا اور ذرائع نقل و حمل روک دیئے،اس دھرنے میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں اور سینکڑوں زخمی ، جس کے بعد آخر کار حکومت نے 27 نومبر کو مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس کے بعد زاہد حامد نے استعفیٰ دیا اور دھرنا ختم کر دیا گیا۔ ویسے تو ہمارے ملک میں دھرنوں کی تاریخ بھری پڑی ہے، لیکن اس دھرنے کی اہم بات تھی کہ جس کی وجہ سے یہ دھرنا ابھی تک موضوع بحث ہے، وہ یہ تھی کہ ایک تو اس دھرنے میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں، دوسرا پورا ملک جام کر دیا گیا، تیسرا سکیورٹی اداروں نے براہ راست مظاہرین سے مذاکرات کر کے احتجاج ختم کروایا ، چوتھا سپریم کورٹ نے اس معاملے پر سو موٹو ایکشن لیا اور اداروں کے خلاف رپورٹ جاری کردیں، پانچواں جس سپریم کورٹ کے جج نے 2019ء میں دھرنے کے خلاف فیصلہ دیا اور سکیورٹی اداروں کے خلاف سخت ریمارکس دیے اُس کے خلاف ریفرنس بنا اور بعد میں وہی جج یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان بنے ،چیف جسٹس بننے کے بعد انہوں نے یہ کیس ایک بار پھر کھولا اور حکومت سے کہا کہ وہ انکوائری کمیشن بنائے اور ذمہ داران کا تعین کرے۔ جس پر گزشتہ سال نومبر میں حکومت نے تین آفیسرز پر مشتمل انکوائری کمیشن ترتیب دیا جو ریٹائرڈ پولیس افسر سید اختر علی شاہ (سربراہ کمیشن) ،سابق انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) اسلام آباد طاہر عالم خان اور ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ خوشحال خان پر مشتمل تھا،یہ کمیشن ’’پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017‘‘ کے تحت تشکیل دیا گیا تھا تاکہ 6 فروری 2019 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعمیل کو یقینی بنایا جا سکے، جسے اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا تھا۔(اس فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ ایسے فوجی اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرے جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔عدالتی حکم میں سڑکیں بلاک کرنے اور نقصِ امن کے مسائل پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا گیا تھا۔)مذکورہ کمیشن نے اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس دھرنے میں کسی سکیورٹی ادارے کو قصور وار ٹھہرانے سے اجتناب کیا ہے اور سارا ملبہ اُس وقت کی ن لیگ کی پنجاب حکومت یعنی شہباز شریف حکومت پر ڈال دیا ہے،انکوائری کمیشن کا رپورٹ میں کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کی طرف سے اسلام آباد کی جانب مارچ کو آنے دینے کی اجازت دینا نامناسب عمل تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کی طرف سے مارچ کی اجازت دینا نامناسب عمل تھا۔لیکن صوبائی حکومت نے ووٹ بینک بچانے کے لیے مظاہرین کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ جو قابل تعریف نہیں ہے۔ یہ ذمہ داری سے انحراف اور مس کنڈکٹ ہے لہٰذا قصورواروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ رپورٹ میں فیض حمید سمیت فوجی افسران کو کلین چٹ دے دی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ شہباز شریف، احسن اقبال، زاہد حامد ، آفتاب سلطان سے بھی ایجنسیوں کے کردار کا پوچھا گیا۔ تمام متعلقہ گواہان نے کسی بھی ادارے یا شخصیت کے کردار سے انکار کیا۔ لہٰذا کمیشن کے لیے کسی بھی ایجنسی یا شخصیت کو دھرنے سے جوڑنا ممکن نہیں۔کمیشن کے مطابق 22 نومبر 2017 کی میٹنگ کے منٹس سے بھی یہی تصدیق ہوئی۔ دھرنے سے نمٹنے کے تمام فیصلوں کی ذمہ داری سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے قبول کی ہے۔کمیشن نے سفارش کی ہے کہ رینجرز اور ایف سی کو واپس سرحدوں پر بھیجا جائے۔ انہیں شہری علاقوں میں آنے سے روکا جائے۔ ان پر خرچ ہونے والے وسائل پولیس کو دیے جائیں۔کمیشن رپورٹ میں راولپنڈی کی انتظامیہ کی کوتاہی کا بھی ذکر کیا گیا اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی تجویز دی گئی ہے۔ کمیشن نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں احتجاج سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ مخصوص فورس قائم کرنے کی بھی سفارش کی۔کمیشن نے ملک میں انٹیلی جینس اداروں کے بارے میں قانون سازی کی سفارش بھی کی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج ریاست کا مقدس ادارہ ہے۔ اسے تنقید سے بچانے کے لیے سول امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ اس سے ادارے پر عوامی اعتماد بڑھے گا۔ بہرحال کمیشن کی رپورٹ پر سینکڑوں قسم کے تبصرے ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی ٹال مٹول سے کام بھی لیا جا رہا ہے، کیوں کہ یہ رپورٹ بھی ریاست کے کرتا دھرتاؤں کی اس سوچ اور نفسیات کی عین عکاس ہے جو آج سے نہیں بلکہ لگ بھگ 75 برسوں سے اس اصول پر کامل ایمان رکھتے ہیں کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سیاست دان، سیاسی جماعتیں اور جمہوری حکومتیں ہیں۔ تبھی تو کمیشن نے تحریک لبیک کے دھرنے کا سارا نزلہ اس وقت کی پنجاب حکومت پر گرایا ہے جسے تب وزیر اعلیٰ شہباز شریف لیڈ کر رہے تھے۔رانا ثناء اللہ اس وقت پنجاب حکومت کے وزیر داخلہ تھے۔ وہ رپورٹ کے بارے میں بالکل مختلف رائے رکھتے ہیں۔ خیر علم نہیں کون سچا ہے اور کون جھوٹا … لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ان رپورٹس کا آخر کار کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بے شمار اضافی اخراجات ہوتے ہیں، بہت سی میٹنگز ہوتی ہیں، قوم کا وقت برباد کیا جاتا ہے۔ قوم کس سے انصاف مانگے؟ کس کو اپنے دکھ درد کا ساتھی سمجھے؟ جس ملک میں انصاف ہی نہ ہو یا طاقتور کے خلاف کارروائی کرنے کا رجحان ہی نہ ہو ، وہ کیسے ترقی کر سکتاہے؟ اس لیے عدلیہ کو ہی آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا ۔ اس کی مثال یوں لے لیں کہ دوسری جنگ عظیم جاری تھی اور جرمن جہازوں کے حملوں سے بہت سا جانی نقصان بھی ہو رہا تھا اور ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے تھے ان ابتر حالات میں ایک شخص نے ملکی صورت حال پر پریشانی کا اظہار کیا توچرچل نے پوچھا،’’کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں‘‘۔ اسے بتایا گیا کہ عدالتوں میں جج موجود ہیں اور لوگوں کو انصاف فراہم کر رہے ہیں۔ چرچل نے کہا کہ شکر ہے، جب تک عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں کچھ غلط نہیں ہو سکتا۔ لہٰذااس رپورٹ کو سابقہ رپورٹس کی طرح فائلوں میں بند نہ کیا جائے تاکہ ذمہ داران کا تعین ہو اور آئندہ ایسا کچھ نہ ہو ۔