گزشتہ سال سے جاری صہیونی جنگ میں غزہ کی پٹی مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔ غزہ میں آباد تقریباََ بیس لاکھ فلسطینی شہری مصر کی سرحد رفح پہ پناہ گزین کیمپوں میں مفلوک الحال تارکین ِ وطن جیسی زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ گھر، مساجد، ہسپتال، سکول، کالجز، یونیورسٹیز، سڑکیں، بازار اوردیگر انفراسٹرکچر کلی طور پر زمین بوس ہوچکا ہے۔ صہیونی بربریت کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں عالمی سطح پر احتجاج کیا جارہا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسیحی عوام سراپا احتجاج ہیں۔ امریکی، برطانوی، سپین، فرانس، جرمنی، اٹلی سمیت دیگر سبھی اہم ممالک کے عوام صہیونی مظالم کے خلاف احتجاج کررہے ہیں اور اپنے حکمرانوں سے صہیونی معاونت سے ہاتھ کھینچنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔امریکی عوام جس انداز میں صہیونی ریاست کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اْس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ امریکی عوام کے احتجاج کی شدتِ نے امریکی صدارتی الیکشن پر اَثرات مْرتب کرنا شروع کردیے ہیں۔ اَمریکی صدر جوبائیڈن کو ہر سیاسی جلسے میں اسرائیلی ریاست کی حمایت کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اَمریکی عوام اگر باور کرادیا جائے کہ امریکی حکومت صہیونیت کی معاونت کے ذریعے معصوم اور نہتے فلسطینی شہریوں پر زمین تنگ کرچکی ہے تو یقین جانئے محض امریکی عوام ہی اِس ظلم و ستم کا راستہ روک سکتے ہیں۔ مسلم اقوام کی طرح امریکی قوم بھی اِس ظلم و ستم پہ سراپا احتجاج ہے جو قابلِ ستائش ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب کی سَرد مہری نے امریکی حکومت کو سوچنے پہ مجبور کردیا ہے کہ مسلم دْنیا امریکی ریاست میں دلچسپی کھورہی ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد ِ سلطنت شہزادہ محمد بن سلمان نے ڈھکے چھپے الفاظ میں امریکی حکومت کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان ہی وہ اعلیٰ عالمی شخصیت ہیں جو صہیونی ریاست اور فلسطین کے درمیان امن معاہدہ کرانے میں خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ بلکہ شہزادہ محمد بن سلمان یہ معاہدہ کرانے کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے جب عالمی میڈیا پہ یہ خبریں چلنا شروع ہوگئیں کہ ’حماس نے اسرائیل پہ حملہ کردیا ہے‘۔ حالانکہ یہ تاریخی ودفاعی حوالوں سے بالکل لایعنی بات تھی۔ پاکستان سمیت عالمی میڈیا نے بھی اِسی خبر کوچلایا کہ صہیونی ریاست فلسطینی حملے سے دوچار تھی۔ شاید تین دن بعد پاکستانی میڈیا کو اپنی سنگین غلطی کا اِحساس ہواجب تجزیہ نگاروں اور دفاعی ماہرین نے حالات کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ صہیونی ریاست پہ حملہ کرنا حماس کی دفاعی صلاحیت کی نفی کرتاہے۔ حماس کے پاس سوائے جذبہ ِ حْریت کے سامانِ حرب سِرے سے تھا ہی نہیں مگر عالمی میڈیا صہیونی ریاست پہ حملے کا نقطہ نظر مضبوط کرچکا تھا۔ یہ وہ پراپیگنڈہ تھا جس نے غزہ کے نہتے شہریوں پہ تاریخ کی بدترین بمباری کی راہ ہموار کردی۔ صہیونی ریاست کی طرف سے جاری کردہ یکطرفہ جنگ کے پہلے تین دن نکال کر پاکستانی میڈیا ’جنگ بندی‘ کی خبریں دے رہا ہے۔ شاید جنگ کے پہلے مہینے کے بعد ’حماس‘ جنگ بندی کے بدلے صہیونی ریاست کے شہریوں کو رہا کرنے کی پیشکش کرتی آرہی ہے مگر صہیونی ریاست ماننے کو تیار نہیں۔ پِچھلے دِنوں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنگ بندی کی قرار داد منظور کی تو صہیونی ریاست کے وزیراعظم بنجمن نتن یاہو نے حماس پہ واضح کیا کہ وہ ’جنگ میں عالمی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائیں گے‘۔ عملی طور پر بھی یہی ہوا کیونکہ نیویارک میں قیام ِ امن کی راہ ہموار کرنے کیلئے صہیونی ریاست نے اپنے وفد کو بنا کسی معاہدے کے واپس بلالیا۔ تاریخی حوالوں سے جانچا جائے تو یہ معمولی جنگ نہیں ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب شاہِ یروشلم سے بیت المقدس خالی کرایا تو صہیونی رہنمائ￿ نے کہا تھا ’صلاح الدین! ہم واپس آئیں گے‘۔ وہ واپس آئے اور دوبارہ یروشلم پہ قبضہ کیا جسے عثمانی سلطانوں نے چھڑایا۔ صہیونیوں نے عیسائی دنیا کے سرکردہ رہنماؤں کی معاونت سے دوبارہ یروشلم پہ قبضہ جمایا جو گزشتہ ستتر سالوں جاری ہے۔ صہیونی ریاست ہر صورت میں یروشلم میں گولڈن ٹیمپل بنانے پہ تْلی ہے۔ اِس مقصد کیلئے وہ ’ڈوم آف راک‘ اور ’بیت المقدس‘ کو گرانے کی خواہاں ہے تاکہ گولڈن ٹیمپل بناکر وہ ’گریٹر اسرائیل‘ کے منصوبے کو پایہ ِ تکمیل تک پہنچاسکے۔ تاریخی حوالوں سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جو فوجیں اِمام مہدی کی معاونت کریں گی اور یروشلم میں جاکر اسلام کا جھنڈا گاڑھیں گی وہ خْراسان کے علاقوں سے چلیں گی۔ جب یہ پشین گوئی کی گئی تب خراسان موجودہ افغانستان، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ اور ایران کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھا۔ اب ایک طرف صہیونی ریاست عالمی استعمار ی حربوں کو بروئے کار لاکر بین الاقوامی کارپوریشنز کے ذریعے ’اشتہارات‘ کے زور پر عالمی میڈیا کو قابو کئے ہوئے ہے۔ دوسری جانب مغربی حکمرانوں کو سامنے رکھ کر بلوچستان، خیبر پختونخواہ، افغانستان اور ایران میں قیام ِ امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اِس وقت کسی مسلم رہنمائ￿ میں یہ دَم خَم نہیں کہ وہ تن ِ تنہا یا پھر دیگر مسلم حکمرانوں کے ساتھ مل کر بزورِ شمشیر صہیونی ریاست کا راستہ روک سکے۔ صہیونی ریاست کو روکنے کا واحد راستہ امریکی، برطانوی، جرمن اور فرانسیسی اقوام ہیں جنہیں یہ باور کرایا جائے کہ صہیونی ریاست معصوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھارہی ہے۔ کیونکہ حال ہی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صہیونی ریاست امریکہ میں موجود صہیونی لابنگ اور پراپیگنڈہ فرمز کے ذریعے امریکی عوام میں یہ تاثر پیدا کررہی ہے کہ فلسطین پر ظلم و ستم کی جو ویڈیوز اْنہیں دکھائی جارہی ہیں وہ ’فیک‘ ہیں۔ بلکہ یہاں تک باور کرایا جارہا ہے کہ وہ ویڈیوز صہیونی ریاست کے خلاف پراپیگنڈہ ہیں۔ یہی وجہ ہے جہاں صہیونی ریاست پہلے ہی روایتی میڈیا پر کنٹرول کیے ہوئے ہے وہیں اْس نے سوشل میڈیا پہ لفظ ’فلسطین‘ اور ’غزہ‘ پہ پابندی عائد کررکھی ہے۔ کوئی ایسی ویڈیو جس میں لفظ ’غز ہ یا فلسطین‘ پکارا جائے وہ فوری طور پر ڈیلیٹ کردی جاتی ہے۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اسرائیلی ریاست کے مظالم کا جہاں راستہ روکنا چاہئے وہیں صہیونیت کے پراپیگنڈہ کا اْسی انداز میں تدارک کرنا چاہئے۔