یہ آصف محمود کی تازہ کتاب کا عنوان ہے۔ مسئلہ فلسطین پر آصف محمود کی مدلل تحریریں پڑھنے والے ان کی اس موضوع پر گرفت سے واقف ہیں۔ اس کتاب میں ،عالمی قانون پر نگاہ رکھنے والے ایک قابل قانون دان اور صحافی کی حیثیت سے انہوں نے مسئلہ فلسطین کا بہت باریک بینی سے جائزہ لیا اور بہترین کام یہ کیا کہ اسے ایک کتاب کی صورت میں یکجا کر دیا۔ مسئلہ فلسطین کو سمجھنے اور انصاف اور امن کے نام پر قائم کیے جانے والے عالمی اداروں کے گھناونے اور قابل نفرت کردار کو جاننے کے لیے یہ کتاب سب کو پڑھنی چاہیے،کتاب کے دیباچے میں فاضل مصنف لکھتے ہیں"فلسطین کے موضوع پر ہمارے ہاں بہت سارا غلط مبحث پایا جاتا ہے یہ کتاب اسی کے ازالے کے لیے لکھی گئی ہے۔ فلسطین کے معاملے میں کوئی بحث اس وقت تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتی ،جب تک اس مسئلے کی مبادیات کو بین الاقوامی قانون کے سیاق و سباق میں سمجھ نہ لیا جائے" دہائیوں پر محیط مسئلہ فلسطین کو آصف محمود نے تمام تاریخی اور قانونی حوالوں کے ساتھ نہایت مدلل انداز میں صرف 166 صفحات میں اس طرح بیان کر دیا ہے کہ جبر اور جارحیت کا ہر دور ظلم اور ناانصافی کا ہر باپ پڑھنے والے پر عیاں ہو جاتا ہے۔کتاب میں وہی کچھ بیان کیا جو فلسطین اور فلسطینیوں کے ساتھ مغربی قوتیں, انصاف اور امن قائم کرنے والے نام نہاد عالمی اداروں کی چھتری تلے کرتی رہیں ہیں اور کر رہی ہیں۔آصف محمود نے بڑے مدلل انداز میں متحدہ جیسے امن قائم کرنے والے عالمی ادارے کے وجود پر اور اس کے منافقت سے بھرے ہوئے کردار پر سوال اٹھائے ہیں ۔ مسئلہ فلسطین کی قانونی پہلوؤں کی تفہیم کے لیے کتاب کو 19 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔چند ابواب کے نام پڑھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتاب کس باریک بینی کے ساتھ مسئلے فلسطین کا جائزہ لیتی ہے پہلا باب ہے۔فلسطین لیگ آف نیشنز کا سیکرڈ ٹرسٹ؟لیگ اف نیشن کا انٹرنیشنل لا یا صہونیت کی سہولت کاری۔ایک اور باب کا عنوان ہے فلسطین میں جبری یہودی آباد کاری : قانونی جائزہ۔فلسطین لیگ آف نیشن سے اقوام متحدہ تک۔کیا انٹرنیشنل لا فلسطینیوں کو مزاحمت کا حق دیتا ہے؟اسرائیل کا حق دفاع انٹرنیشنل لا کی روشنی میں۔ کیا اسرائیل زمینیں خرید کر قائم ہوا تھا ؟ غزا ہولوکاسٹ جنگی قوانین کیا کہتے ہیں؟القدس کا دفاع کس کی ذمہ داری ہے؟ صہونیت اور جنرل اسمبلی ۔کیا اسرائیل ایک جائز اور قانونی ریاست ہے؟انٹرنیشنل لا یا بین الاقوامی لاقانونیتیہ چند ابواب کے نام ہیں۔مسئلہ فلسطین کو بین الاقوامی قانون کے تناظر میں سمجھنے کی بہت ضرورت ہے اس وقت جب کہ سات ماہ سے فلسطینی مسلسل صیہونی ظلم اور جبر کا شکار ہیں، 35 ہزار سے زائد فلسطینی بچے عورتیں مرد شہید کردیے گئے۔ فلسطینیوں کی بدترین نسل کشی جاری ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی یہ ظلم دیکھ رہی ہے۔ ان حالات میں بھی بہت سے لوگ مسئلہ فلسطین کی بنیاد نہیں سمجھتے اور بعض اوقات مسئلہ فلسطین پر بحث غلط صورت اختیار کر جاتی ہے ایسے ہی حقائق سے نا بلد بعض پڑھے لکھے لوگ بھی حماس پر جنگ چھیڑنے کا الزام لگاتے ہیں۔جبکہ کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تمام عالمی قوانین کے مطابق حماس جو کچھ کیا وہ اپنے دفاع میں کیا۔فلسطین کی سرزمین گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل جارحیت کا شکار ہے یہ سرزمین کبھی جنگ سے نکلی ہی نہیں۔ مصنف نے تمام حقائق قارئین کے سامنے پیش کیے اور اور پھر بین الاقوامی قانون کی عملداری پر سوال اٹھایا ہے لکھتے ہیں کہ عالمی قوانین جو تمام مغربی قوتوں نے اپنے فکری ڈھانچے کے مطابق بنائے لیکن جب ان قوانین کے اطلاق کی باری آتی ہے تو یہ قوّتیں اس پہ عمل کرنے سے انکار کردیتی ہیں۔ کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے جو بظاہر عالمی امن کو قائم کرنے کے لیے بنائے گئے ان عالمی اداروں نے مسئلہ فلسطین پر فلسطینی مسلمانوں سے دشمنی اور نفرت کا کھل کر اظہار کیا۔ یہ جتنے بڑے ادارے ہیں اتنی بڑی منافقت ان کے ہر کام سے جھلک رہی ہے۔ عالمی ادارہ امن و انصاف کے طور پر پہلے لیگ آف نیشنز اور اب اقوام متحدہ کا کردار انتہائی گھناؤنا اور قابل نفرت ہے۔لیگ آف نیشنز سے لے کر اقوام متحدہ تک اس ادارے نے اسرائیل کی جبر کی کھلی حمایت کی۔ تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب فلسطین برطانیہ کے انتداب میں تھا تو انٹرنیشنل لاء نے اس کو ایک مقدس امانت کہا تھا تو وہ مقدس امانت فلسطینیوں کو واپس کیوں نہیں کی گئی۔ لیگ آف نیشنز کی ناانصافیوں کے بعد مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اقوام متحدہ کا گھناونا اور قابل نفرت کردار سب کے سامنے ہے۔ جس مکاری اور ہنر کاری کے ساتھ اقوام متحدہ صیہونی ظلم وبربریت کا ساتھ دیا اور دے رہا ہے جی چاہتا ہے کہ کتابوں میں اقوام متحدہ کی تعریف میں لکھے گئے تمام روایتی ابواب پھاڑ کر پھینک دیے جائیں۔ اقوام متحدہ کا کردار انتہائی قابل نفرت ہے، زخموں پر نمک ڈالنا آگ کو پیٹرول دکھانا اور پھر خاموش تماشائی بن کر امن کے نعرے لگانا اقوام متحدہ کا چارٹر صرف اور صرف منافقت اور ظالم کی حمایت ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اپنوں اور غیروں کی ناانصافی ، صیہونی جارحیت اور ہولناک جبر کی یہ داستان پڑھتے ہوئے ایک حساس قاری کا خون کھول اٹھتا ہے۔ سوچتی ہوں ظلم اور ناانصافی کی اس داستان کو لکھتے ہوئے خود مصنف کس ذہنی کیفیت سے گزرا۔فلسطین کے ساتھ جذباتی وابستگی کے باوجود آصف محمود کا قلم جس توازن کے ساتھ عالمی قوانین اور حالات و واقعات پر مبنی حقائق کی بنیاد پر مسئلے کا جائزہ لیتے اور موضوع تک محدود رہتے ہیں، یہ قابل تحسین ہے۔ کسی ایک کالم میں اس کتاب پر مکمل تبصرہ نہیں ہو سکتا خواہش ہے کہ اگلے کالم میں کتاب کے چیدہ چیدہ حصوں کو شامل کیا جائے تاکہ جتنا ہو سکے قارئین تک مسئلہ فلسطین کے حوالے سے حقائق پہنچیں۔کتاب اشاعت کے معتبر ادارے سنگ میل پبلیکیشنز نے شائع کی ہیں یہ کتاب سب کو پڑھنی چاہیے تاکہ اس بنیادی مسئلے پر ہم دلیل سے بات کرنے کے قابل ہو سکیں۔