قائداعظم کی شخصیت اور کردار تاریخ ساز ہے قائد اعظم نے جو چاہا‘ وہ پایا۔ برطانوی مصنف بیورلے نکسbeverley Nichols اپنی کتاب بعنوان محاکمۂ ہند Verdrct on Indiaمیں لکھتے ہیں کہ محمد علی جناح ایشیا کے اہم ترین فرد ہیں۔ ایشیا کی تقدیر اور مستقبل ان کی مرضی کے مطابق ہو گا کیونکہ انہوں نے اپنی مسلم قوم کو متحد‘ موثر اور منظم کر دیاہے۔ آج کروڑوں مسلمان قائد اعظم کی سیاسی‘ اور مقاصد (آزاد اسلامی ریاست) کے حصول کے لئے سیسہ پلائی دیوار بن گئے ہیں۔ جو اس سے ٹکرائے گا وہ پاش پاش ہو جائے گا۔ مذکورہ کتاب 1945ء کے لگ بھگ شائع ہوئی اس کتاب میں متحدہ ہندوستان کے تقریباً تمام اہم اور بڑے قائدین سے مکالمہ ہے جن میں گاندھی ‘ نہرو ‘ پٹیل ‘ سکھ اور دلت لیڈر(اچھوت) ڈاکٹر امبیدکر کے مکالمات بھی شامل ہیں۔ بیورلے نکلس نے جو بات قائد اعظم کے بارے میں کہی‘ وہ من و عن درست ثابت ہوئی۔ گاندھی‘ نہرو‘ پٹیل اور دیگر ہندو کانگرسی قائدین برطانوی سامراج کی سرپرستی اور مغربی جمہوری نظام کے تحت ’’متحدہ ہندوستان‘‘ کے لئے سیاسی جدوجہد کر رہے تھے یہ سب ناکام ہوئے اور قائد اعظم کامیاب رہے۔ قائداعظم کی سیاسی پالیسی تقسیم ہند اور خطے میں آزاد اسلامی ریاست (پاکستان) کا قیام تھا۔ برطانیہ تقسیم ہند نہیں چاہتا تھا اس امر کا اظہار اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم مسٹر ایٹلی نے اپنی یادداشت The Memore میں لکھا ہے کہ ہمیں تقسم ہند اور آزاد اسلامی ریاست پاکستان کے قیام کا فیصلہ مجبوری کے باعث کرنا پڑا۔ اس مجبوری کی وجوہات میں پہلی بات یہ تھی کہ قائد اعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے تلے متحد ہو کر آزاد اسلامی ریاست کے لئے کروڑوں مسلمانوں کو سیاسی اور معاشرتی یکجہتی فراہم کر دی تھی۔ مضبوط اور آزاد اسلامی ریاست کے لئے مضبوط اسلامی معاشرہ درکار تھا جو قائد اعظم نے مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد کے ذریعے ممکن بنایا۔ مسٹر ایٹلی مزید لکھتے ہیں کہ برطانوی سرکاری اور غیر سرکاری انٹیلی جنس خفیہ ایجنسیوں کی ایک ہی رپورٹ تھی کہ قائد اعظم کی قیادت میں متحدہ ہندوستانی اسلامی معاشرہ آزاد اسلامی ریاست کے حصول تک آرام سے نہیں بیٹھے گا۔ مسٹر ایٹلی لکھتے ہیں کہ کروڑوں متحد اور منظم مسلمانوں کی بات نہ ماننا ایک طویل خانہ جنگی کو قبول کرنا تھا وگرنہ ہندو مسلم کشمکش میں برطانوی سول اور فوجی افسران سینڈ وچ بن ک مارے جاتے۔ ’’مسٹر ایٹلی لکھتے ہیں کہ برطانوی ہندی افواج میں مسلمانوں کا تناسب مسلم آبادی سے کئی گنا زیادہ تھا۔ آرمی میس میں بھی ہندو مسلم مسئلہ اتنا سنگین تھا کہ لمحہ بھر کی غفلت کوتاہی یا غلط فیصلے سے ہندو مسلم فوجی آپس میں لڑ پڑتے اور مسلمان اچھی فوجی مہارت اور ہمت کے باعث تمام متحدہ ہندوستان کی حکومت سنبھال سکتے تھے۔ مسٹر ایٹلی مزید لکھتے ہیں کہ ہندو مسلم خانہ جنگی میں مسلمانوں کی کامیابی کے امکانات تھے نیز خانہ جنگی کے دوران کمیونسٹ روس کراچی تا گوادر گرم پانیوں کے حصول کے لئے ہندوستان میں فوجی مداخلت کر کے پانسا پلٹ سکتا تھا۔ یہ قیام پاکستان کا اندرونی اور بیرونی پس منظر تھا۔ باور ہے کہ آخری برطانوی وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن قیام پاکستان کو ’’پاگل پن‘‘ کہتے تھے اور یہی موصوف آزاد ہندو بھارت کے پہلے گورنر جنرل منتخب ہوئے یہ ہندو انگریز گٹھ جوڑہی تھا جس کا اظہار لارڈ ویول نے اپنی کتاب عظیم تقسیم Garet Diwideمیں درایں الفاظ کیا ہے کہ ’’ہم نے برطانوی پالیسی کے مطابق‘ ہندو بھارت ایک مضبوط قلعہ اور پاکستان ایک کمزور ٹینٹ ‘کیمپ Campکی شکل میں تعمیر کیا ہے جو بھارتی قلع کی ہلکی سے آندھی سے بھی ڈھیر ہو جائے گا۔ آج 76برس بیت گئے اور پاکستان بھارتی اور اس کے عالمی حلیف ملکوں اور اداروں کی تیز آندھی‘ طوفان اور بحران کا مقابلہ کر رہاہے اور تاحال ڈھیر نہیں ہوا۔ بے شک بندے (دشمن) اپنی تدبیر بناتے ہیں اور کاتب تقدیر اللہ تعالیٰ اپنی تدبیر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر ہی غالب و کار آفرین اور کارساز ہوتی ہے۔ قائد اعظم اور ان کے راہنما‘ مرشد اور دوست علامہ اقبال کے نزدیک خطے(جنوبی ایشیا) میں آزاد اسلامی ریاست کے قیام کے پس منظر میں چند بنیادی اسلامی مقاصد تھے پہلا مقصد غیر مسلم آبادی ‘ معاشرے ریاست میں جداگانہ اسلامی شناخت کو منظم‘ موثر اور متحرک رکھنا تھا۔ دوسرا مقصد آزاد اسلامی ریاست‘ معیشت معاشرت اور سیاست کا نظام رائج کرنا تھا۔ دریں صورت پاکستان اپنے روشن اسلامی ماضی کا ازسر نو احیاء کر سکتا ہے فی الحال پاکستان اسلامی اور عالمی نظام کے نفاذ کی کشمکش میں مبتلا ہے ہر دو صورت کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ برطانوی صلیبی سرکار نے ہندو بھارت کے مدد سے پاکستان کو تحریک پاکستان کے بنیادی مقاصد سے دور رکھنے کا بھر پور بندوبست کر رکھا ہے برطانیہ ہندو کانگرس اور مسلمانوں کے باغی ‘ ملحد اور مرتد احباب اور احزاب کی مدد سے 3جون 1947ء کے تقسیم ہند کے بنیادی مقصد سے انحراف کیا۔ پہلا انحراف متحدہ بنگال اور پنجاب کے صوبوں کو مسلم اور غیر مسلم آبادی کے تناسب سے تقسیم در تقسیم کا شکار کیا‘ مشرقی پاکستان میں ICSقادیانی بیورو کریٹ عزیز احمد انتظامی بندوبست کے تحت مغربی ہندو بنگال بشمول بھارتی بنگال ‘ بہار اور اڑیسہ شامل ہے‘ بھارت کے حوالے کر دیا گیا جو بالآخر مشرقی پاکستان کی علیحدگی 16دسمبر 1971ء سقوط ڈھاکہ کا سبب بنا۔یاد رہے کہ مشرقی پاکستان پہلے چیف سیکرٹری عزیز احمد قادیانی تھے جو بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہے۔متحدہ صوبہ پنجاب کی تقسیم میں کلیدی انتظامی کردار ICSقادیانی بیورو کریٹ ایم ایم احمد (جو مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے تھے) کا تھا جس نے غیر مسلم اور مسلم بنگال کی طرز پر متحدہ پنجاب کی تقسیم کی جس میں مسلم اکثریتی ضلع گورداسپور بشمول قادیان کو بھارت کے حوالے کیا جس کے ذریعے ہندو بھارت کو مقبوضہ کشمیر تک زمینی رسائی حاصل ہوئی جبکہ بھارت سرکار نے مشرقی پنجاب کے مزید 3صوبے بنائے اور ہریانہ و ہما چل ہندو اکثریتی صوبے بنا دیے اور مشرقی پنجاب کے نام 56فیصد سکھ آبادی پر مشتمل سکھ صوبہ بنایا، جس کا آزاد خودمختار صوبائی انتظامی یونٹ بھی ہما چل کو دے کر دونوں مذکورہ صوبوں کا صوبائی کیپٹل provincial Capitalچندی گڑھ بنا دیا، جس کے باعث سکھ قوم میں علیحدہ جداگانہ شناخت کی کمزور جدوجہد جاری ہے۔ گلگت بلتستان میں سرکشی کی سازش آزاد مختار متحدہ کشمیر کی خشت اول ہے خود مختار آزاد اور متحدہ کشمیر کی تحریک عالمی ادارے اقوام متحدہ کے ماتحت ریاست کی ہو گی جو فی الحقیقت موجودہ مغربی پاکستان کی جغرافیائی تقسیم در تقسیم کا پیش خیمہ ہے لہٰذا پاکستان کی موجودہ سول ملٹری اشرافیہ بہت سوچ سمجھ کر بلکہ پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہیے۔