صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن سے پہلے خطاب میں تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں ’قومی مفاہمت‘ کی طرف قدم بڑھائیں۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی اِس موقف کی تائید کرتے ہوئے تمام رہنماؤں کو ذاتی انا کو پس ِ پشت ڈال کر ڈائیلاگ کے ذریعے آگے بڑھنے کا عندیہ دیا ہے۔ اِن خیالات کا براہِ راست ایک بھرپور سیاسی منظر نامہ ہے۔ آصف علی زرداری پہلے سویلین سیاستدان ہیں جو دوسری بار جمہوری طریقے سے کرسی ِ صدارت پہ براجمان ہوئے ہیں۔ سابق وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضاگیلانی چیئرمین سینٹ منتخب ہوچکے ہیں۔وہ بھی پہلے سیاستدان ہیں جو سپیکر قومی اسمبلی، وزیراعظم پاکستان، سینٹ میں اپوزیشن رہنماء اور اب چیئرمین سینٹ کے عہدے پر براجمان ہوئے ہیں۔ گورنر پنجاب کی تبدیلی بھی جلد متوقع ہے اور اْمید قوی ہے کہ کرہِ فعال جنوبی پنجاب کے حصے میں آنے لگا ہے۔ اگرچہ حکومت پاکستان مسلم لیگ نواز نے تشکیل دی ہے مگر ریاست ِ پاکستان کی باگ ڈور پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھوں میں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز نے پہلی بار ایک خاتون وزیراعلیٰ کا انتخاب کیا ہے۔ یہ اچھا شگون ہے کہ جس دن سے مریم نواز شریف وزیراعلیٰ بنی ہیں اْنہوں نے سیاسی مخالف جماعت پاکستان تحریک ِ انصاف پہ تنقید کی نشتر نہیں چلائے بلکہ اپنے تئیں وہ پوری کوشش کررہی ہیں کہ اپوزیشن کو بھی ساتھ ملا کر چلیں۔قبل ازیں نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے جس انداز میں پنجاب میں ہسپتالوں اور تھانوں کی بحالی کا کام کیا، مختلف پروجیکٹس کا اجراء کیا، اب نئی وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے یہ کسی چیلنج سے کم نہیں کہ وہ شہباز سپیڈ کا مقابلہ کریں یا محسن نقوی سپیڈ کا؟ جس انداز میں سوشل میڈیا نے ملک میں معلومات کی ترسیل، تعلقاتِ عامہ اور چوک چوارہے پر سماجی بحث کو جنم دیا ہے، تاحال سوشل میڈیا سے صرف تحریک ِانصاف نے بھرپور فائدہ اْٹھایا ہے۔ منجھے ہوئے سیاستدان رکھنے کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ تحریک ِانصاف نے نوجوانوں کے جذبات کی زبردست ترجمانی کی ہے۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی واحد جماعت تھی جس نے فوراًََ بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو کو عوام کے سامنے پیش کردیا۔خاتون ِ اول آصفہ بھٹو زداری تاریخ کی پہلی کم عمر ترین پارلیمنٹیرین ہیں جنہیں ایک بڑی سیاسی جماعت میں نوجوانوں کو پارٹی میں متحرک کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ یوں کسی حدتک پیپلز پارٹی نوجوانوں میں ’نئی سوچ‘ کا بیانیہ پہنچانے میں کامیاب رہی ہے۔ مسلم لیگ نواز کے پاس حمزہ شہباز شریف اور مریم نواز شریف موجود تھے مگر جماعت حالات کی نزاکت کو سمجھنے میں کتراتی رہی۔ اب مریم نواز شریف کو وزیراعلیٰ پنجاب بناکر مسلم لیگ نوا ز نے حالات کو قابو میں کرنے کی کوشش ضرور کی ہے مگر کافی دیر ہوچکی ہے۔شْنید ہے کہ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب سے طاقتور گورنر پنجاب لانا چاہ رہی ہے۔ نئے گورنر کو یہ ذمہ داری سونپی جائے گی کہ وہ پنجا ب میں پیپلز پارٹی کی ازسر ِ نو بحالی و تنظیم سازی یقینی بنائیں۔ اِس ضمن میں چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی اور گیلانی خاندان مرکزی کردار ادا کریں گے۔ رحیم یار خان سے مخدوم سید احمد محمود، بہاولپور سے حافظ حسین احمد مدنی، مظفر گڑھ سے حنا ربانی کھر اور نوابزادہ افتخار احمد خان جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی از سر ِ نو بحالی کا بیڑا اْٹھانے جارہے ہیں۔ اِس حوالے سے گورنر ہاؤس لاہور پیپلز پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں کا محور بن سکتا ہے۔ شاید گورنر پنجاب کی تعیناتی کا عمل سست روی کا شکار بھی اِسی لئے ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت چاہتی ہے کہ پارٹی پنجاب میں دوبارہ اپنے پاؤں پہ کھڑی ہو اور وہ پانچ سال یا اْس سے قبل بلاول بھٹو زرداری کو ہر صورت وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے۔ دوسری جانب جہاں مسلم لیگ نواز اپنی سیاسی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا فیصلہ کرچکی ہے اور جلد پارٹی قیادت مریم نواز شریف کو سونپنے کا عندیہ دے رہی ہے، وہیں تحریک ِ انصاف کے لئے بھی یہ سنہری موقع ہے کہ وہ آگے بڑھے۔ پچاس ساٹھ سالوں کی سیاست کے بعد دونوں بڑی سیاسی جماعتیں تاریخ سے یہ سبق حاصل کرچکی ہیں کہ ملک میں اقتدار کا حصول مقتدرہ سے مفاہمت کے ساتھ مشروط ہے۔ ٹکراؤ کی پالیسی سے تاحال نقصان سیاسی جماعتوں کا ہی ہوا ہے۔ تحریک ِ انصاف کو جس قدر جلد یہ اِحساس ہوجائے اْتنا ہی تحریک ِ انصاف اور ملک و قوم کیلئے بہتر ہے۔ اِس وقت تحریک ِانصاف کو محض مقتدرہ کے ساتھ ٹکراؤ کااکیلا چیلنج درپیش نہیں ہے بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے اندرقیادت کی تبدیلی کا رحجان بھی شامل ہے۔جماعت ِ اسلامی کی قیادت بھی بدل چکی ہے۔عین ممکن ہے کہ آنے والے دِنوں میں نئے امیر ِ جماعت حافظ نعیم الرحمان کی قیادت مذہبی جماعتوں کی سیاست کا رْخ طے کرے۔ کیونکہ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں جمعیت علماء اسلام، سردار اختر مینگل کی قیادت میں بلوچستان نیشنل پارٹی، سردار محمود خان اچکزئی کی قیاد ت میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی پہلے ہی حکومتی اتحاد سے کنارہ کشی اختیار کرچکی ہیں۔ اِس وقت جہاں بدلتے قومی و بین الاقوامی حالات حکومتی اتحاد کے لئے چیلنج ہیں،وہیں اندرونی سطح پر سیاسی جماعتوں کے اندر قیادت کی تبدیلی اور نوجوانوں میں بدلتے سیاسی رحجانات بڑی سیاسی جماعتوں کے لئے بہت بڑا چیلنج ثابت ہونگے۔