انسان بنیادی طور پر مختلف خواہشات کا اسیر ہے۔ قدرت نے اِس کے اندر نفس امارہ کی سر کشی اِس لیے رکھی ہے کہ اِس کو آزمایا جا سکے۔ شیطان نے جب آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور تکبر میں آخر اپنے آپ کو سب سے افضل سمجھا تھا جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو ہمیشہ کے لیے مردود قرار دے دیا تو اُس نے اللہ تعالیٰ سے ایک عرض کی کہ اے باری تعالیٰ جس کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے تو نے مجھے ہمیشہ کے لیے اپنے قرب سے دور کر دیا اب مجھے اُس پر ایک اختیار بھی دے کہ میں اِس کو تجھ سے دور کر سکوں اور اِس کا کنٹرول میرے ہاتھ میں بھی دے تا کہ میں اِس کو گمراہ کر سکوں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیری یہ خواہش بھی پوری کر دی گئی ہے جو بھی ابن آدم ؑ ماں کے پیٹ سے باہر آئے گا تو بھی اُس خون میں شامل ہو گا لیکن یاد رکھنا تو میرے منتخب بندوں کو ہرگز گمراہ نہیں کر سکے گا اُن پر تیرا بس نہیں چلے گا ۔حضور اقدس ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ شیطان ابن آدم کے خون میں دوڑتا ہے اور وہ انسان کو گمراہ کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے دراصل شیطان کا ہمارے خون میں دوڑنا شامل ہونا نفس امارہ کا طاقت ور ہونا ہے۔ یہی نفس امارہ ابلیس کا پیرو کار ہے اور ہر انسان کو بدی کی طرف راغب کرنا ہی دراصل نفس امارہ کا اولین کام ہے ۔ یہی نفس امارہ ہمیشہ ہر طرح کی خواہشات ، لالچ ، حسد ، بغض ، کینہ ، قتل ، شراب نوشی ، بدکاری اور دیگر برائیوں کی طرف راغب کرتا ہے۔ ہم اپنی خواہشات کے پیچھے لگ کر ابلیس کو خوش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتے ہیں روزانہ انہی خواہشات کی وجہ سے ہم مایوس ہو کر اللہ تعالیٰ سے دور ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے جب تک سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع نہیں ہو گا تو بہ گناہوں کو ختم کرتی رہے گی یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہم انسانوں پر ایک بہت بڑا احسان ہے کہ اُس پاک ذات نے ہماری مغفرت اور بخشش کی خاطر توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے انسان چونکہ بنیادی طور پر بے انتہا کمزور پیدا کیا گیا ہے یہ بہت جلد ابلیس کے دھوکے کا شکار ہو جاتا ہے یہ بہت جلد اپنی خواہشات کا اسیر ہو جاتا ہے یہ شیطان کے بہکاوئے کا بہت جلد شکار ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ میرے بندے بہت کمزور جلد باز اور جاہل ہیں اِن تینوں باتوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں مختلف سورتوں میں کیا ہے کہ انسان بڑا جلد باز ہے یہ بڑا کمزور ہے اور پھر فرمایا انسان بڑا جاہل ہے تو اِن سورتوں میں اللہ تعالیٰ کے خاص بندے جس پر اُس پاک ذات کا خاص فضل ہے وہ ہی ایسی خواہشات سے بچ سکتے ہیں وگرنہ عام انسان شیطان کے وسوسوں کا شکار ہو جاتا ہے کسی بھی خواہش کا پیدا ہونا دراصل نفس امارہ کا انسان کو اپنی طرف راغب کرنا ہی ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کا فرمان ہے کہ ’’خواہش زخم ہے اور قناعت اُس کا مرہم ہے ‘‘ یعنی خواہش کا پیدا ہونا جو کہ فطری عمل ہے دراصل یہ انسانی وجود اُس کے دل میں زخم کی طرح ہے جو اس کو تکلیف دیتا ہے اور ہر درد اور تکلیف کا علاج اُس پر مرہم رکھنے سے ہی ہوتا ہے اس لیے باب علم حضرت علی ؓ نے کتنی خوب صورت بات کی ہے کہ اگر کسی بھی انسان کے اندر خواہش پیدا ہو جائے اوربجائے اِس کے کہ وہ انسان اپنی اِس خواہش کو پورا کرنے کے لیے نا جائز کام کرنا شروع کر دے اور اِن کاموں کی وجہ سے گمراہی کا خطرہ پیدا ہو جائے تو اِس لیے وہ فوری طور پر اِس خواہش کا علاج قناعت اختیار کر کے اُس پر کنٹرول حاصل کر سکتا ہے کیونکہ جس شخص کو قناعت کی دولت میسر آگئی تو پھر وہ شخص دنیا کا امیر ترین شخص بن جاتا ہے جس کے اندر خواہش پیدا ہی نہیں ہوتی وہ ہمیشہ برائیوں اور کرپشن سے بچا رہتا ہے لیکن افسوس کہ آج ہم اپنی خواہشات کے پیچھے دیوانے ہو چکے ہیں ہم میں سے ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ دنیا کی ہر آرائش میسر ہو۔ اعلیٰ سے اعلیٰ رہائش ہو بڑی گاڑی بڑا عہدہ اور دولت کے ریل پیل انسان میرے سامنے غلام بن کر رہیں میں جو لفظ بھی منہ سے نکالو اُس کی فوری تعمیل ہو پوری دنیا میں میرے نام کا ڈنکا بج رہا ہوں۔ ’’ہے صدا تجھے کو یہی دھن ہوفیشن نرالہ ہو زینت نرالی ‘‘ بس ہر حال میں میری شہرت اور میرے زینت کا چرچا ہو کیا یہ باتیں اُس انسان کو زیب دیتی ہیں جو بہت جلد مرنے والا ہو؟ ہم سب اِس دنیا میں مسافر کی طرح ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں اپنی بیوی کے باب اور عفت مر گئی ‘‘ میں لکھا ہے کہ عفت اور میں ایک ریلوے کے پلیٹ فارم پر کچھ دیر کے لیے اکٹھے بیٹھے باتیں کر رہے تھے کیونکہ ہم دونوں مسافر تھے اِس دوران عفت کی ٹرین پہلے آگئی اور وہ اُس پر سوار ہو کر اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ہو گئی جبکہ میں اپنی ٹرین کے انتظار میں بیٹھا ہوں میری ٹرین جونہی آئے گی تو میں بھی اُس پر سوار ہو کر اپنی منزل (یعنی عالم بر زخ) کی طرف روانہ ہو جاؤں گا۔ یہ دنیا عارضی اور جلد ختم ہو جانے والی ہے یہ محلات اور بنگلے ہمارے نہیں اربوں لوگ اِس دنیا میں آئے اور چلے گئے جن کو آج یاد رکھنے والا بھی کوئی نہیں ۔ اسی طرح ایک دن ہمارے ساتھ بھی یہی ہو گا کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا : چن چن تنکا محل بنایا لوگ کہیں گھر تیرا گھر تیرا نہ گھر میرا چڑیا رہن بسیرا