دنیا کا سب سے طاقت ور ملک امریکہ ہے۔ اس کی طاقت کے پیچھے اصل راز ان کا ایک فیصلہ ہے کہ کسی بھی سربراہ حکومت کو دو مدت سے زیادہ ملکی صدر منتخب نہیں کریں گے۔ اٹھارویں صدی کے آخری میں امریکہ کے بانی صدر جارج واشنگٹن جب چار چار سال کی دو صدارتی مدت پوری کر چکے تو انہیں تیسری دفعہ بھی صدارتی انتخاب لڑنے کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر تیسری دفعہ انتخاب لڑنے کی پیشکش کو ٹھکرا دیا کہ کسی صدر کے لئے دو صدارتی مدت ہی کافی ہیں۔ ان کے الفاظ سے امریکہ میں ایسی جمہوری روایت نے جنم لیا کہ اگلے سوا سو سال تک کوئی صدر بھی دو دفعہ یعنی آٹھ سال سے زیادہ صدر منتخب نہیں ہو سکا۔ 1932ء میں منتخب ہونے والے صدر فریکلن روز ویلٹ پہلے اور آخری صدر تھے جو دو دفعہ سے زیادہ ملک کے صدر منتخب ہوئے لیکن 1945ء میں اپنی چوتھی صدارتی مدت شروع ہونے کے تھوڑے ہی عرصے بعد فات پا گئے۔ اس کے بعد آئین میں بائیسویں ترمیم کے ذریعے 1951ء میں پابندی لگا دی گئی کہ کوئی بھی شخص دو مدت یا آٹھ سال سے زیادہ امریکہ کا صدر نہیں رہ سکتا۔ راقم کے نزدیک یہی ایک ایسا عنصر ہے جو امریکہ کو دنیا کا سب سے زیادہ طاقتور اور کامیاب ملک بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنے علم اور تجربے و مشاہدے کی بنیاد پر جو بھی صلاحیت پیدا کرتا ہے زیادہ سے زیادہ آٹھ سال میں اسے ملکی ترقی میں استعمال کر چکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگر صدر بنے گا بھی تو ملک کو کچھ نیا نہیں دے سکے گا۔تب کسی نئے بندے کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیت کے مطابق ملک کی خدمت کر سکے۔ اس طرح ملکی حکومتی معاملات میں تازہ دم قیادت نئے جذبے اور نئی صلاحیتوں کے ساتھ نمودار ہوتی ہے اور ملک کی خدمت کر کے کسی اور باصلاحیت فرد کے لئے راستہ چھوڑ دیتی ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو دنیا کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی یعنی 230 سے زیادہ ممالک و انتظامی علاقوں میں رضا کارانہ بنیادوں پر محروم لوگوں کی خدمت کرنے والی تنظیم روٹری انٹرنیشنل کی کامیابی کا راز ہے۔ یہ چھیالیس ہزار کلبوں اور 14لاکھ سے زیادہ رضا کار اراکین پر مشتمل ہے۔1905ء سے اب تک نہایت کامیابی سے چل رہی ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کے صدر کی مدت ایک سال ہوتی ہے اور کوئی بھی شخص دوسری مدت کے لئے اس کا صدر منتخب نہیں کیا جاتا۔ ہر سال نیا صدر‘ نئے جذبے‘ نئے خیالات و تصورات‘ نئے منصوبوں اور نئی توانائیوں کے ساتھ روٹری انٹرنیشنل کی کرسی صدارت پر متمکن ہوتا ہے۔ اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ چودہ لاکھ رضا کاروں کی قیادت کرتے ہوئے دنیا بھر کے ضرورت مند لوگوں کی خدمت کرتا ہے اور اگلے سال نئی منتخب قیادت کے لئے جگہ چھوڑ کر ایک طرف ہو جاتا ہے۔ہر سال تازہ دم خون روٹری کو دنیا کی سب سے بڑی اور کامیاب تنظیم بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ جو انتخابی جمہوریت میں منتخب ایوان اور حکومت کی مدت مقرر ہوتی ہے اس کے پیچھے بھی دراصل یہی مقصد کارفرما ہوتا ہے کہ منتخب ہونے والی قیادت ایک خاص عرصہ میں اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ قوم کی ترقی میں کردار ادا کرے اور جب اس کی صلاحیتوں کا خزانہ خالی ہو جائے تو گھر کی راہ لے تاکہ نیا راہنما آ کر نئے خیالات اور صلاحیتوں کی روشنی میں جدید تر تقاضوں کے مطابق ترقی کے سفر میں قوم کی راہنمائی کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں تمام جمہوریتوں کی ماں یعنی برطانیہ میں پہلی خاتون وزیر اعظم‘ایک روسی صحافی کی طرف سے دیے گئے آئرن لیڈی کے خطاب سے جانی جانے والی مسز تھیچر ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ کامیاب وزرائے اعظم میں سے ایک ہونے کے باوجود اپنی تیسری وزارتی مدت پوری نہ کر سکیں حالانکہ 1987ء میں انہیں عوام نے لینڈ سلائیڈ فتح کے ساتھ تیسری مدت کے لئے وزیر اعظم منتخب کیا تھا۔ لیکن 1990ء میں دو سال قبل ہی انہیں استعفیٰ دینا پڑ گیا کیونکہ وہ قوم کو گیارہ سالہ دور میں اپنی تمام صلاحیتوں سے مستفید کر چکی تھیں۔ اس طرح برطانیہ کے تب تک کے سب سے کم عمر وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو بھی اپنی تیسری وزارتی مدت کے دوران ہی 2007ء میں استعفیٰ دینا پڑ گیا حالانکہ عوام نے تو انہیں 2005ء میں بے مثال کامیابی سے ہمکنار کیا تھا لیکن 10سال کے بعد اب قوم کو دینے کے لئے ان کے پاس کچھ نہیں رہ گیا تھا اس لئے خود ہی استعفیٰ دے کر وہ ایک طرف ہو گئے۔ جرمنی کے چانسلر ہملیٹ کوہل بھی مسز تھیچر کی طرح سرد جنگ جیتنے والے قائد تھے یورپی یونین قائم کرنے کا سہرہ ان کے سر جاتا ہے بلکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جرمن کو دوبارہ متحد کرنے کا سہرہ بھی انہی کے سر ہے لیکن جب وہ ریکارڈ اٹھارہ سال تک منتخب سربراہ حکومت کے طور پر قوم کی خدمت کر چکے تو وہ صلاحیت کے لحاظ سے بالکل تہی دامن ہو چکے تھے اس لئے جرمنی کے عوام نے 1998ء میں اگلی مدت کے لئے منتخب کرنے سے انکار کرتے ہوئے انہیں گھر کی راہ دکھا دی۔ ہر شخص کی صلاحیتوں کی ایک حد ہوتی ہے اس کے بعد اگر وہ کسی کرسی سے چمٹا رہے گا تو وہ قوم کو کچھ نیا نہیں دے سکے گا بلکہ اپنے قدیم خیالات سے قوم کا نقصان ہی کرے گا۔ لیکن پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں عوام کے پاس کوئی چائس رہنے ہی نہیں دی گئی۔ اب نئے انتخابات کا ڈول تو ڈالا جا چکا ہے لیکن راقم حیران ہے کہ آخر ان انتخابات کے نتیجے میں قوم کو کیا نیا ملنے والا ہے۔ تمام جماعتوں میں وہی گھسے پٹے خیالات و نظریات والے سیاسی قائدین جو کئی کئی مدت قوم کی خدمت کر کے اپنی تمام صلاحیتوں کا پہلے ہی مظاہرہ کر چکے ہیں ان سے کیا توقع باندھی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے فرسودہ خیالات کے ذریعے معاشی و معاشرتی گرداب میں پھنسی ہوئی اس قوم کو اس سے نکال لیں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ہوتے ہوئے قوم گرداب میں پھنسی ہے پتہ نہیں اس ملک کی ریاستی مقتدرہ کن توقعات کی بنیاد پر ان لوگوں کی صلاحیتوں پر اعتبار کرتی ہے۔ یہ بات نہایت واضح ہے کہ پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ قرضوں کے گرداب سے نکالنے کے لئے اس کی معیشت کی تنظیم نو کی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں معیشت کے نئے شعبے دریافت کر کے انہیں ملک میں متعارف کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے ذریعے نوجوان ملکی معیشت میں اضافے کا سبب بن سکیں۔ ریاستی مقتدرہ سے لے کر عام ووٹر تک سب کے سامنے یہی سب سے بڑا سوال ہے کہ ایسی کون سی قیادت ہے جسے آگے لایا جائے جس کی یہ صلاحیت ہو کہ قوم کو گرداب سے نکال سکے۔ سوال یہ نہیں کہ کس کا کیا کردار ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس میں کیا صلاحیت ہے۔ اگر کسی میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ اس مشکل صورتحال سے قوم کو نکال سکے تو اس راقم کے نزدیک انتخابات کی ساری مشق محض وقت اور پیسے کا ضیاع ہے اور کچھ بھی نہیں۔