لمز(LUMS) لاہور کے ماتھے پر سید بابر علی کا سجایا گیا ایک دل فریب جھومر اور تعلیم کی دنیا میں اعلیٰ معیار کی خوش گوار علامت ہے۔ یہ وطنِ عزیز میں لبرل آرٹس آف ایجوکیشن اور ذہنی آزادی کے ساتھ حصولِ تدریس کی بے مثال درس گاہ و پناہ گاہ ہے۔ یہ ادبی مجلّہ ’بنیاد‘ اسی جھومر کا ایک خوش نما موتی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ادارے کی علمی بنیاد اور اس کا ادبی ’بنیاد‘ دونوں قابلِ رشک ہیں۔ اس ادبی مجلّے کی باطنی خوبیاں تو بعد کی بات، اس کے ظاہر کی بھی بلائیں لینے کو جی مچلتا ہے۔ یوں لگتا ہے دولھے کی بہنوں نے بَری میں رکھنے کے لیے خصوصی طور پر سجایا ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اس کی ایک کاپی کھول کے پڑھنے کے لیے آپ کے پاس ہونی چاہیے اور دوسری ڈرائنگ روم میں ڈیکوریشن پیس کے طور پر سجانے کے لیے۔ بلکہ مَیں سمجھتا ہوں کہ اپنے ارد گرد باذوق دوستوں اور مطالعے مشاہدے کے شوقین لوگوں کو تحفے کے طور پر دینے کے لیے بھی اس سے اچھا تحفہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ مَیں اس پرچے اور ڈاکٹر ناصر عباس نیر دونوں کو خوش قسمت سمجھتا ہوں جو ایک دوسرے کو کسی نہ کسی طور میسر آ گئے اور ان دونوں لبرلز کا یہ حسین سنگم بالآخر ’بنیاد‘ پرستی پر منتج ہوا۔ ایک زمانے میں اسی لاہور میں ناصر کاظمی ہمیشہ گئے دنوں کے سراغ میں سرگرداں رہا کرتا تھا اور لمحۂ موجود میں ناصر عباس نئے دنوں کی جستجو میں سرگرمِ عمل ہے۔ یہ بتاتا چلوں کہ ناصر عباس نیر جیسے منفرد نگار، مفرد کار اور جدت پسند (واضح رہے کہ یہ جدت پسند، روایتی ترقی پسند سے مختلف چیز ہے) اس دور میں کم کم ہیں۔ ناصر عباس نیر کا لاہور میں ورُود ، کثیر اہلِ نظر و صاحبانِ خبر کی مانند باہر سے ہوا۔ وہ جھنگ کی ترنگ سے چھلکتا اور ڈھنگ کی اُمنگ سے مہکتا تقریباً دو دہائیاں قبل پنجاب یونیورسٹی، اورینٹل کالج میں داخل ہوا۔ وہ اورینٹل کالج، جس سے آج بھی بہت سوں کیسنہری یادوں کا شہد ٹپکتا ہے۔ کبھی وہ ہمارے لیے خالص شہد کا چھتا تھا، رفتہ رفتہ جسے’مرضِ مفادات‘ کی بھینٹ چڑھا کر مکھیوں کے چھتے میں تبدیل کر دیا گیا۔ یعنی دیکھتے ہی دیکھتے شہد پُنا، شُہد پُنے میں منقلب ہو گیا۔ ناصر عباس نیر جو ایک طرف تنقید کی دنیا میںانوکھے نرالے دَر وا کرنے پہ مُصر ہے اور دوسری جانب ایسے ناقدین کو نئے نئے خطوط لکھنے میں مگن کہ جنھوں نے خط سے حظ اٹھانا تو ایک طرف، محترمہ کتاب سے بھی کُٹی کر کے حضرت پیر کاپی پیسٹ کے ہاتھ پہ خضوع و خشوع کے ساتھ بیعت کر رکھی ہے۔ ویسے تو اس تین صد صفحاتی پرچے ’بنیاد‘ کی درجن بھر تحریریں اور اس کا باطنی حسن کُلی طور پر لاجواب ہے لیکن فی الحالمیرا ارتکاز اس کے گوشۂ میر پر ہے اور سچ پوچھیں مجھے تو لگ رہا ہے کہ اس کے تین صد صفحات اُردو دنیا کے اس نابغے (میر تقی میر) کے تین سو سالہ (1723ئ۔2023ئ) دورانیے کو خراج پیش کرنے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ آج سے ڈھائی تین سو سال قبل ہمارے یہ شاعرِ دل گیر، جانے کس کیفیت سے دوچار یا کیف سے سرشار ہو کر ایک بڑا بول ، بول بیٹھے تھے کہ: سارے عالَم پر ہوں مَیں چھایا ہوا مستند ہے میرا فرمایا ہوا یہ بول یا دعویٰ اگرچہ بہت بڑا تھا لیکن اس میں اگر ذرا سا بھی مبالغے یا تعلّی کا شائبہ ہوتا تو ظالم زمانہ، حاسد معاصرین، بے رحم وقت، لٹھ مار ناقدین، حقائق کا کلیجہ نکال لینے والے محققین، انا پرست قدما، مُوشگاف مجدّدین، آستینیں اور تیوریاں چڑھا چڑھا کے اسے دیوانے کی بَڑ، خود ستائی،ساون کا اندھا، اپنے منھ میاں مِٹھو اور جانے کیسے کیسے القابات کا طومار باندھ کے شاعر اور ادبی تاریخ کا حلیہ بگاڑ دیتے، لیکن دوستو! یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اس ٹھیک ٹھاک تعلّی اور اچھی خاصی خود ستائی کے جواب میںادبی تنقید کی خورجی کسی بھی طرح کے طوفانِ بدتمیزی سے خالی ہے بلکہ اٹھارھویں صدی کے ماتھے پہ ’’خدائے سخن‘‘ کا طغرا بھی نہایت طمطراق سے سجا دکھائی دیتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ادبی دنیا میں در آنے والے جغادری اور نابغے نہ صرف اس لقب پر صاد کرتے بلکہ اس سے کئی قدم آگے بڑھتے ہوئے، خود بھی میر کی عظمت کا کلمہ پڑھنے لگتے ہیں۔ میر تقی میر، ستمبر جن کی پیدائش اور وفات کا مہینہ ہے، وہ ستمبر 1723ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔1739ء میں نادر شاہ درانی کا حملہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں اُردو شاعری کی طرف مائل ہوئے، پھر اسی کی زلفوں کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ چھے ضخیم دیوان اور سینتیس مثنویاں یادگار ہیں۔ 20 ستمبر 1810ء کو لکھنو میں انتقال کیا : ساز بسیج آمادہ ہے سب قافلے کی تیاری ہے مجنوں ہم سے آگے گیا ہے اب کے ہماری باری ہے ادبی دنیا کے بڑے بڑے دیو قامتوں پر نظر ڈالیں تو پوری زندگی میں کسی کو بھی خاطر میں نہ لانے والوں کا میر کے سامنے ڈنک گر جاتا ہے۔ مصحفی کہ جس نے اپنے عہد کے ہر بڑے معاصر کا ناطقہ بند کیے رکھا، میر کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرتے دکھائی دیتے ہیں : اے مصحفی! تُو اور کہاں شعر کا دعویٰ پھبتا ہے یہ اندازِ سخن میر کے منھ پر شیخ امام بخش ناسخ کہ جو آتش جیسے استاد شاعر کو خاطر میں نہ لاتے ، میر کے سامنے ان کا بھی سر جھک جاتا ہے: شبہ ، ناسخ! نہیں کچھ میر کی استادی میں آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں خاقانیِ ہند اور اُردو لسانیات و محاورات کے مسلّم الثبوت شاعر ابراہیم ذوق ، جو غالب جیسے مہان شاعر پہ بھی نکتہ چینی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، میر کے حضور وہ بھی با وضو ہو جاتے: نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا خود حضرتِ غالب کہ جن کا تخلص ہی ان کے مزاج اور تیوروں کا پتا دیتا ہے، وہ بھی میر کے آستانے پہ نہ صرف سیس نواتا نظر آتا ہے: میر کے شعر کے احوال کہوں کیا غالب! جن کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں الطاف حسین حالی کہ جس نے اُردو شاعری کے لیے ایک نیا ضابطۂ فوج داری یا موج داری مقرر کرتے ہوئے دبستانِ لکھنو کے کنگرے ہلا کے رکھ دیے، میر کو وہ بھی نہ صرف مرشد کے درجے پہ فائز رکھتے ہیں بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سادگی، جوش اور اصلیت جیسے خصائص، ان کے ذہن میں آئے ہی میر کی شاعری پڑھ کے ہیں ۔ خراج ملاحظہ ہو: حالی سخن میں شیفتہ سے مستفید ہوں شاگرد میرزا کا ، مقلّد ہوں میر کا ڈاکٹر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں: ’’میرنے زبان کی ظاہری اور زیریں ساختوں کو جس طرح برتا اور اظہار کی اعلیٰ ترین سطحوں پر فائز کیا، یہ اعزاز اور اعجاز کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوا: بہرحال ہم اس خوبصورت ادبی مجلّے اور میر کی تین سو سالہ گونج کو خراج پیش کرنے پر ادارہ لمز کے گورمانی مرکز، پرچے کے مدیران و مزیدان، عاقب وفرحان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ والسلام! (لمز میں منعقدہ تقریب میں پڑھا گیا)