لاہورشہرنے ہمیشہ بڑے لوگوں کو اپنی آغوش میں پناہ دے کر جوان کیا ہے۔ اِس خوب صورت شہر کو نہ جانے اب کس کی نظر کھا گئی ہے کہ اب تو لاہور کو نام سن کر بھی آدمی خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ ہر بڑی کا نزول لاہور سے ہی ہوتا ہے۔ ابھی کورونا اور ڈینگی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات مکمل نہیں ہوئے کہ سموگ نے لاہور کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے وہ لاہور کہ جو ہمارے ملک کا دل ہے اور زندہ دلان لاہور کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ افسوس کہ آج ماحولیاتی آلودگی میں پہلے نمبر پر آچکا ہے ۔ اِس کی خو ب صورتی جو کبھی پورے بر صغیر میں مشہور تھی۔ مغلیہ دور حکومت میں لاہور کو خوب ترقی دی گئی تھی ۔ بادشاہی قلعہ ، بادشاہی مسجد ، شالیمار باغ ، مسجد وزیر خان چوبرجی جیسی شاہکار عمارتیں لاہور کی پہچان ہیں۔ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے والے حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش ؒ بھی یہاں پر آرام فرما رہے ہیں ۔ مرکز تجلیات درگاہ حضرت داتا گنج بخشؒ دن رات لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتی ہے۔ یہاں پر امیر اور غریب سب حضرت داتا گنج بخشؒ کا لنگر لائن میں کھڑے ہو کر حاصل کرنے میں ایک روحانی تسکین محسوس کرتے ہیں۔ لاہور انہی کے دم سے آباد ہے۔ خوب صورت ہے اور ہر نئے آنے والے کو اپنے سینے سے لگا لیتا ہے۔ لیکن افسوس کہ آج لاہور گندگی کی زد میں ہے۔ روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی بھی اِس کابڑا مسئلہ ہے۔ پانچ سے دس لاکھ آبادی کے لیے بنائے گئے اس خوب صورت شہر کی آبادی اِس وقت ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ لیکن افسوس کہ کسی نے بھی اِس اہم مسئلہ کی طرف توجہ دی۔ نہ ہی لاہو رکو بچانے کے لیے کسی قسم کے اقدامات کئے گئے ۔ سموگ ، ڈینگی اور نہ جانے اس کے علاوہ کتنی ماحولیاتی روگ ہیں جو یہاں کے باسیوں کی جان لے رہے ہیں۔میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف لاہور کے ساتھ بڑی محبت کرتے ہیں اُن کے آبائی حلقے بھی قدیم لاہور میں ہیں۔ بھاٹی دروازہ ، لوہاری دروازہ ، یکی گیٹ ، دہلی گیٹ ، شاہی قلعہ ، موہنی روڈ ، بتی چوک ، نسبت روڈ ، لکشمی چوک ، لنڈا بازار ، ریلوئے روڈ وغیرہ یہ سب علاقے قدیم لاہورمیں ہیں اور انہی علاقوں سے نواز شریف اور شہباز شریف ہمیشہ منتخب ہوتے رہے ہیں لیکن انہوں نے لاہور کو آلودگی سے بچانے کے لیے اقدامات مہیں کئے ۔ میاں شہباز شریف نے شیر شاہ سوری ثانی بننے کے چکر میں لاہور کا حشر نشر کر دیا۔ میٹر وبس سے لے کر اورنج ٹرین چلانے کے لیے لاہور کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا اِن منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے لاہور کے تاریخی ورثہ کو جس طرح سے تباہ کیا گیا اُس کا ذکر بھی اخبارات میں کیا جاتا رہا۔ بے حس حکمرانوں نے اپنی جھوٹی انا کی تسکین کی خاطر کسی کی نہ سنی اور آج وہی اورنج ٹرین قوم کے اربوں روپے سود کی شکل میں ہڑپ کر رہی ہے۔ اگر قوم کے یہی اربوں روپے تعلیم اور صحت کے شعبوں پر خرچ کر دیئے جاتے تو کتنا بڑا تعلیمی انقلاب برپا ہو سکتاتھا۔ لیکن شہرت اور نام کمانے اور اپنے ناموں کی تختیاں لگوانے والے حکمرانوں کو اِن باتوں سے کوئی غرض نہیں تھی وہ صرف او رصرف نت نئے طریقوں سے اپنا نام زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ لاہور کہ جو باغوں ، پارکوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا شہر ہے ، جہاں پر کبھی صبح سے لے کر رات گئے تک ایسے ایسے نایاب اور نادر لوگ اپنے علم ادب اور صحافت کے ذریعے اس شہر کو روشن کیا کرتے تھے کہ زمانہ آج بھی اُن پر ناز کرتا ہے فیض احمد فیض سے لے کر اُستاد دامن تک احسان دانش ، حفیظ جالندھری ، ناصر کاظمی ، ساغر صدیقی ، اے حمید ، اشفاق احمد خان ، احمد ندیم قاسمی ، سیف الدین سیف ، حبیب جالب ، احمد راہی ، قلتیل شفائی اور افسانے کی دنیا کے بادشاہ سعادت حسن منٹواور صحافیوں میں آغا شورش کاشمیری ، حمید نظامی ، مولانا ظفر علی خان ، علامہ تاجور نجیب آبادی ، مولانا چراغ حسن حسرت ، ابراہیم جلیس ، ابن انشاء جیسے نا بالغہ روز گار شخصیات لاہور کی پہچان ہوا کرتے تھے ۔ لیکن افسوس کہ آج کا لاہور اِن عظیم لوگوں سے محروم ہو چکا ہے ۔ لاہور کی خوب صورتی کو بُری طرح سے روندھا جا رہا ہے وہ شہر کے جس کی دھوم پورے بر صغیر میںوہا کرتی تھی اور جس کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح خصوصی طور پر آیا کرتے تھے ۔ آج ہماری بے حسی اور غفلت کی وجہ سے اپنا عظیم ورثہ اور اپنا مقام کھوتا جا رہا ہے ۔ ہمارے موجودہ حکمرانوں کی بے حسی بھی قابل غور ہے کہ جو اِس کو بچانے کے لیے کسی قسم کے تاریخی اقدامات نہیں کر رہے ۔ مال روڈ جو لاہور کا دل ہے اِس روڑ پر روزانہ ہزاروں گاڑیاں گزرتی ہیں اور دھواں چھوڑتے پورے ماحول کو خراب کر رہی ہیں کم از کم حکمران لاہور پر اتنا تو احسان کر دیں کہ لاہور میں گاڑیوں کے چلنے کی تعداد محدود کر دیں اور اِس کے لیے محکمہ ماحولیات لاہور اور ٹریفک پولیس کو ایک خصوصی ٹاسک دیا جائے کہ لاہور اندرون شہر میں ایک محدود تعداد سے زیادہ گاڑیاں کسی صورت نہ چلنے دی جائیں۔موٹر سائیکل رکشے ختم کر کے اُن کی جگہ ماحول دوست رکشے یا پھر ماضی کی شاہی سواری تانگہ کو دوبارہ متعارف کرایا جائے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار صرف اگر اِسی ایک فارمولہ ہی پر عمل کراد یتے ہیں تو صرف ایک ہفتہ میں لاہور سے سموگ کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ اگر صرف بیانات کے ذریعے سموگ کو ختم کرنے کے اعلانات ہوتے رہے تو پھر اگلے پانچ سالوں میں لاہور کو آپ کو بچانے کے لیے بہت کچھ کھونا پڑے گا ۔